میر واعظ مولوی فاروق کون تھے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-05-2021
 میر واعظ مولوی محمد فاروق
میر واعظ مولوی محمد فاروق

 

 

آشا کھوسہ/نئی دہلی

کئی دہایوں تک انتشار اور خلفشار کے شکار جنت نظیر وادی کشمیر کے سیاسی افق پر کبھی ایک ایک روشن ستارہ جگمگایا کرتا تھا ،آج اسے یاد کرنے کا دن ہے ۔ میر واعظ مولوی محمد فاروق شاہ سبز جھنڈے کی شناخت کے ساتھ کشمیر کی ایک سیاسی جماعت عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما تھے ، جو بد قسمتی سے 31 سال قبل آج ہی کے دن دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے۔ ان کے حامی سری نگر شہر کے ایک بڑے حصے میں پھیلے ہوئے تھے۔ میر واعظ کی پارٹی کا مقابلہ گزشتہ تین نسلوں سے کشمیر کی سیاست پر غالب رہنے والی نیشنل کانفرنس سے تھا ۔ نیشنل کانفرنس نے خود کو شیر کا لقب دیا اور میر واعظ کی پارٹی کے حامیوں کو طنزیہ انداز میں بکرا کہ کر ان کی تضحیک کی ۔

بکرا لفظ میر واعظ کے حامیوں کے ساتھ چسپاں کر دیا گیا۔ اور شیر اور بکرے کی لفظی جنگ اکثر اوقات انتخابی موسم میں شدت اختیار کر جاتی تھی ۔ یہ اکثر پتھراؤ اور گالیوں پر ہی ختم ہوتی تھی ۔ یہ مناظر وادی میں دہشت گردی کی شروعات سے پہلے کی کشمیر کی سیاست کے لازمی جز ہوا کرتے تھے ۔ انتخاب کے آخری دن فاتح کا فیصلہ گولیوں سے نہیں بلکہ لفظی معرکہ آرائی کے سے ہوتا تھا ۔

مولوی محمد فاروق شاہ نہ صرف ریاستی سطح کی ایک انتہائی مقبول سیاسی شخصیت تھے بلکہ ایک مذہبی رہنما اور ایک معزز کنبہ کے فرزند کی حیثیت سے لوگ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ان کے چچا میر واعظ یوسف شاہ اصل میر واعظ تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ مولوی میر واعظ یوسف شاہ بعد میں سیاسی اکھاڑے میں کودے اور کشمیر کے قد آور رہنما شیخ عبد اللہ کے سیاسی حریف بن گیے ۔ بالآخر وہ پاکستان چلے گئے جہاں انہیں مقبوضہ کشمیر کا دو مرتبہ وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔

انیس سالہ فاروق شاہ 24 دسمبر ، 1963 کو حضرت بل کے مزار سے پیغبر اسلام کے مقدس تبرکات کی پراسرار گمشدگی کے خلاف احتجاج کے دوران ایک رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ اس واقعے کے بعد مشتعل اور غمزدہ کشمیریوں نے سڑکیں پر آ کر سیاست دانوں پر حملہ کئے اور املاک کو آگ بھی لگائی ۔ فاروق شاہ جو جامع مسجد کے امام تھے ، نے عوامی ایکشن کمیٹی کی سربراہی کرتے ہوئے تبرکات کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

انٹلیجنس بیورو کے سربراہ بی این ملک کے متحرک ہونےسے تبرکات 4 جنوری 1963 کو مل گیے ۔ تبرکات کی چوری کو مزار ہی کے رکھوالوں سے منسوب کیا گیا جس کے بعد عوام تو پرسکون ہو گیے لیکن حکومت اور انتظامیہ ان کے اس شبہ کو دور کرنے میں ناکام رہی کہ یہ ایک سیاسی سازش نہیں ہے جس میں دہلی نے ایک کردار ادا کیا تھا۔ اس کے لئے ہونے والے مظاہروں میں ان کے کردار کے لئے فاروق شاہ کو سراہا جاتا رہا تاہم ان کا قد اس وقت بلند ہوا جب وہ 1968 میں راولپنڈی میں اپنے چچا کی موت کے بعد میر واعظ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔

نوجوان میر واعظ کی تعلیم ان کے گھر میں ہی ہوئی تھی ۔ وہ دینی نصوص کا بخوبی علم رکھتے تھے اور مذہبی علوم پر انہیں خاصا عبور حاصل تھا ۔ انہوں نے سری نگر جامع مسجد کے منبر سے کبھی سیاست نہیں کی۔ وہ ہمیشہ اپنے خطبات میں مذہبی امور کو ہی زیر بحث لاتے تھے جس کی وجہ سے انہیں عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ایک کشمیری پنڈت نے کشمیر ٹائمز میں ایک مضمون لکھا جس میں اس بات کا ذکر کیا گیا کہ کس طرح شہر میں موجود ان کی برادری نے میر واعظ اور ان کے کنبے کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرتے تھے ۔ مصنف راج کمار خوشو یاد کرتے ہیں کہ کس طرح اس خاندان نے سینکڑوں کشمیریوں کی اس وقت مدد کی جب شہر کے وسط میں ایک زبردست آتشزدگی سے تباہی کے نتیجے میں لوگ ہر چیز سے محروم ہوگئے تھے۔ انہوں نے ا پنی دادی کی اس نصیحت کو بھی کو بھی یاد کیا جس میں وہ انہیں میر واعظ کی کار کے نیچے لگی ہوئی مٹی کو عقیدت کے طور پر ہمارے ماتھے پر ملنے کے لئے کہتی تھیں ۔

ایک سینئر صحافی کے مطابق ، ایک بار جب پنجاب سے آئے ہوئے ایک وفد نے انھیں عسکریت پسندی کے زمانے میں ریاست کا دورہ کرنے کو کہا۔ میر واعظ مہمانوں کے ساتھ نہایت خوش اخلاقی کے سطح پیش آے ، انہیں چائے پیش کی ان سے کافی دیر بات چیت بھی کی۔ تاہم جانے کے بعد صحافی نے میر واعظ سے پوچھا وہ پنجاب کا دورہ کب کریں گے ۔ اس پر میر واعظ نے کہا کہ اس وقت میں اتنا مصروف ہوں کہ میں دوسری طرف دھیان نہیں دے سکتا ۔

ان کے سیاسی عزائم بھی محدود تھے کیونکہ وہ میر واعظ کی حیثیت سے ان کو ملنے والے احترام اور پیار سے ہی خوش تھے ۔ تاہم میر واعظ نے 1977 میں وزیر اعظم مورارجی دیسائی کے دورے کے دوران بڑے پیمانے پر شہری استقبال کا اہتمام کیا تھا۔ وزیر اعظم دیسائی کے جلوس کو شہر کے راستے سے لے جایا گیا اور انہوں نے اے سی میر واعظ کے دفتر کا بھی دورہ کیا۔

میر واعظ کی طرف سے دیسائی کے استقبال پیچھے ایک بنیادی محرک کشمیر کو نیشنل کانفرنس کے چنگل سے نکالنا تھا جو کہ ایک کنبہ کی سربراہی والی سیاسی جماعت تھی جس کی کانگریس برسوں سے پشت پناہی کرتی آر ہی تھی ۔ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے سے ہندوستانی سیاست میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا اشارہ تھا اور میر واعظ کو یقین تھا کہ یہ تبدیلی کشمیر میں بھی اپنا رنگ دکھاے گی۔ بعدازاں اے اے سی نے چھوٹی جماعتوں کے اتحاد میں بھی شمولیت اختیار کی جو اس وقت تک علیحدگی پسند سمجھے جاتے تھے اور 1987 میں مسلم متحدہ محاذ (ایم یو ایف) کے بینر تلے انتخابات لڑا ۔

سن 1989 کے وسط میں اچانک تشدد نے کشمیر کو جکڑ لیا ۔ حکومتیں اور قائدین دونوں ہتھیاروں اور تخریب کاری کی تربیت حاصل کرنے اور بندوقیں اور دستی بم استعمال کرنے کے بعد پاکستان سے واپس آنے والے متعدد کشمیری نوجوانوں کے منصوبوں کے حوالے سے متذبذب تھے۔ انہوں نے رہنماؤں کے خلاف زہر اگلا اور انہیں ’’ غدار ‘‘ قرار دیا اور ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ نئے دور کے یہ جہادی قابو سے باہر تھے۔

میں میر واعظ سے مارچ 1990 میں نائیجین جھیل کے کنارے اخروٹ کی لکڑی کی میز سے مزین ان کے دفتر میں ملی ۔ میں نے جامع مسجد میں ان کے جمعہ کے ایک خطبہ میں بھی شرکت کی ، جو ہندوستان کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے ۔ میں نے فضا میں موجود تناؤ کو تو محسوس کیا لیکن آنے والی تباہی اصل اندازہ مجھے بھی نہیں تھا ۔

تمام روایتی سیاستدانوں کی طرح میر واعظ بھی کشمیر کے واقعات سے پریشان اور الجھن میں تھے ۔انہوں نے میرے ساتھی صحافی کو بتایا کہ وہ اس صورتحال سے پریشان ہیں ۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے چاہتے تھے کہ آخر کار نوجوان چاہتے کیا ہیں۔ افسوس کہ ان کے خدشات بہت جلد سچ ثابت ہوئے ۔

awazurdu

تاریخ 21 مئی 1990 کو ، تین نوجوان کشمیری ان کے نائیجین جھیل کے گھر میں میر واعظ سے ملنے آئے تھے۔ تب ان کے گھر کے آس پاس کوئی سیکیورٹی نہیں تھی۔ ان تینوں کو اس کے بڑے دفتر میں داخل کرایا گیا ۔ کچھ ہی منٹ کے اندر باہر موجود اہلکاروں نے فائرنگ کی آوازیں سنی۔ تینوں افراد بھاگ گئے اور عملے کے افراد نے میر واعظ کو خون سے لتھ پتھ دیکھا۔ان کے معتمد یعقوب نے میر واعظ کو اٹھایا اور فوری طور پر اسپتال کو دوڑے ۔

بعد میں میر واعظ کو شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نے مردہ قرار دیا ۔

یہ پاکستان نواز دہشت گرد گروہ حزب المجاہدین کا پہلا بڑا سیاسی قتل تھا جسے آئی ایس آئی کی حمایت حاصل تھی اور آزادی کے حامی جے کے ایل ایف کے غائب ہونے کے چند ہی مہینوں میں کشمیر کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا ۔ اگرچہ جے کے ایل ایف نے اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی صاحبزادی ڈاکٹر روبیہ سعید کو اغوا کرکے اور سیکیورٹی فورسز پر ایک دو حملے شروع کر کے کشمیر میں شورش کا آغاز کیا تھا ، لیکن اس کی قیادت کو گرفتار کرلیا گیا تھا جس کے بعد حزب المجاہدین نے اس کی جگہ لے لی ۔

ان کے جنازے کے دوران بھی ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ جنازے میں سے کسی نے سڑک کے کنارے سی آر پی ایف کے بنکر پر حملہ کر دیا اور جوابی فائرنگ میں 56 افراد ہلاک ہوگئے ۔ المیہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور اس کے نتیجے میں گورنر جگ موہن کو منظر سے ہٹنا پڑا ۔

سی بی آئی نے میرواعظ کے قتل کی تحقیقات کی اور قاتلوں کی شناخت کی۔ ان میں سے ایک کو موت کی سزا ہو گیی جبکہ دو مفرور ہیں- چوتھے کی مقدمہ چلنے سے پہلے ہی موت ہوگئی ۔

میر واعظ کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟

کشمیر کی شورش کے ڈانڈے ہمیشہ سے ہی راولپنڈی میں واقع آئی ایس آئی کے ہاتھ میں رہے ہیں ۔ میر واعظ کے قتل سے عین قبل ان کے خلاف پاکستانی اخبارات میں ایک گھناؤنی مہم چلائی گئی تھی۔ ان دنوںکسی کشمیری رہنما کو بدنام کرنے کا خاص طریقہ یہ تھا کہ اسے ہندوستانی ایجنٹ قرار دے دیا جائے۔ یہاں تک کہ کشمیر کے علیحدگی پسندوں سے بھی یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ حزب المجاہدین کو آئی ایس آئی اور پاکستان کی دیگر ایجنسیان کنٹرول کرتی ہیں اور سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی ہدایت دیتی ہیں ۔ ایک بار حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بھٹ نے کہا تھا کہ میر واعظ ، عبدالغنی لون (پیپلز کانفرنس اور سجاد لون کے والد) سمیت ان کے بھائی محمد بھٹ اور پروفیسر وانی جیسی متعدد کشمیری رہنماؤں کی ہلاکتیں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہوئیں ۔

انہوں نے کہا ، "لون صاحب ، میر واعظ فاروق اور پروفیسر وانی (کشمیر یونیورسٹی) کو فوج یا پولیس نے نہیں مارا۔ انہیں ہمارے ہی لوگوں نے نشانہ بنایا"۔ میر واعظ کو ان کے قد اور ان کی تشدد سے نفرت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ اس کا کنبہ رواداری کے لئے جانا جاتا تھا جو کبھی بھی عسکریت پسندوں کے نظریات کی حمایت نہیں کرتا تھا۔ اس خاندان نے کشمیریت کو فروغ دیا ، جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں باہمی احترام سے عبارت ہے۔

میر واعظ فاروق کی میراث ان کے 17 سال کے اکلوتے بیٹے عمر فاروق کو دے دی گئی۔ ان کی والدہ نئے میر واعظ کی حفاظت کے بارے میں اتنی بے چین تھیں کہ انہیں دینی علوم کے لئے مصر روانہ کردیا گیا۔ تاہم آج میر واعظ عمر فاروق جن کے پاس حریت کانفرنس کے علیحدگی پسند اتحاد کے ساتھ خود کو منسلک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا وہ ہمیشہ کشمیر میں آئی ایس آئی اور اس کی کٹھ پتلیوں کی مستقل نگرانی میں رہے ۔ اعتدال پسند خیالات کے لئے معروف 48 سالہ میر واعظ اب اب بھی کہتے ہیں کہ "میرے والد کی موت ایک معمہ بنا ہوا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ انھیں کس نے مارا۔"