آمنہ فاروق۔ نئی دہلی
عمر تو بس ایک نمبر ہے، ہمت اور جذبہ ہو تو انسان کسی بھی موڑ پر زندگی کو نئے رنگوں کے ساتھ جی سکتا ہے۔ احمدآباد کی 87 سالہ مندا کنی شاہ اسی حقیقت کی زندہ مثال ہیں۔ لوگ انہیں "بائیکر دادی" کا نام سے جانتے ہیں۔ ایک ایسا نام جو ان کی ہمت، آزادی اور بے خوف زندگی کا آئینہ ہے۔
اپنی چھوٹی بہن اوشا کے ساتھ وہ جس انداز میں اسکوٹی پر سوار ہوتی ہیں، وہ منظر بالکل فلم شعلے کے جے–ویرُو جیسا لگتا ہے۔ بال اگرچہ سفید ہو چکے ہیں، مگر حوصلوں کی چمک اب بھی جوان ہے۔ یہ صرف دو بہنوں کی دلچسپ سواری نہیں، خواتین کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے: زندگی کسی عمر کی پابند نہیں۔
کون ہیں بائکر دادی؟
مندا کنی شاہ کی زندگی صرف مہم جوئی تک محدود نہیں، بلکہ تعلیم اور خدمتِ خلق سے بھی بھرپور ہے۔ مندا کنی شاہ کا تعلق احمدآباد کے ایک باوقار مگر سادہ گھرانے سے تھا۔ کم عمری میں ہی ان کے کندھوں پر گھر کی ذمہ داریاں آگئی تھیں۔ محض 16 سال کی عمر میں انہوں نے تعلیم چھوڑ کر کام کرنا شروع کیا، اور بعد میں وہ ایک اسکول میں ٹیچر بنیں۔ انہوں نے نہ صرف بچوں کی تعلیم کا بیڑا اٹھایا بلکہ زندگی بھر سماجی خدمت اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے کبھی شادی نہیں کی؛ اپنی مرضی، اپنی شرائط اور اپنی آزادی کے ساتھ زندگی گزاری۔ آج وہ 87 برس کی عمر میں احمدآباد کی پہچان بن چکی ہیں۔
شعلے اسٹائل کی رائیڈ
جب بھی منداکنی اور ان کی بہن اوشا اسکوٹر پر نکلتی ہیں تو لوگ انہیں حیرت سے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اوشا سائیڈ میں بیٹھتی ہیں اور آگے اسکوٹر چلاتی ہوئی منداکنی پورے ہیرو اسٹیائل میں دکھائی دیتی ہیں۔ روزانہ شہر کی گلیوں میں گھومنا، خریداری کرنا، رشتے داروں سے ملنے جانا۔۔۔ یہ دونوں بہنیں جہاں بھی جاتی ہیں، اپنے انداز سے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں۔
۔87 برس کی عمر میں بھی پوری طرح سرگرم
مندا کنی صرف رائیڈر نہیں، بلکہ ایک زندہ دل انسان ہیں۔ وہ موسیقی سننا پسند کرتی ہیں، دوسروں کو کھیل سکھاتی ہیں اور سماجی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ انہیں دیکھ کر لوگ اکثر کہتے ہیں کہ اگر زندگی جینی ہو تو بائیکر دادی کی طرح ۔۔۔ یہ صرف ایک عام سی کہانی نہیں، بلکہ جذبے، ہمت اور زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے کا وہ زندہ ثبوت ہے جسے دنیا آج ‘بائیکر دادی’ کے نام سے جانتی ہے۔
ان کی بائیکر بننے کا سفر بھی کم حیران کن نہیں۔ 62 سال کی عمر میں پہلی بار اسکوٹی چلانا سیکھا یعنی اس وقت جب اکثر لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کی تلاش میں ہوتے ہیں، وہ نئی زندگی کی طرف گامزن ہو رہی تھیں۔ پہلے موپڈ چلایا، پھر جیپ سیکھنے کی کوشش کی، اور پھر ایک سیکنڈ ہینڈ اسکوٹی خرید کر اپنے اندر کی آزادی کو نئی پرواز دی۔
ان کی کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خواب کبھی ختم نہیں ہوتے، ختم ہوتی ہے صرف ان تک پہنچنے کی ہمت۔ مندا کنی شاہ نے یہ ثابت کیا کہ انسان 87 میں بھی ویسا ہی آزاد، تازہ دم اور بے خوف ہو سکتا ہے جیسے 16 سال کی عمر میں ہوتا ہے۔ ان کا انداز، ان کی بہادری، اور ان کا جذبہ ہم سب کے لیے پیغام ہے کہ زندگی جینے کے لیے لمبی نہیں، ہمت والی ہونی چاہیے۔۔۔۔