جہاں شمشان اور قبرستان بھی ہندو۔مسلم اتحادکادرس دیتے ہیں

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
جہاں شمشان اور قبرستان بھی ہندو۔مسلم اتحادکادرس دیتے ہیں
جہاں شمشان اور قبرستان بھی ہندو۔مسلم اتحادکادرس دیتے ہیں

 

 

رانچی۔ پلامو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر مدنی نگر کا شمشان گھاٹ سماجی ہم آہنگی کا پیغام دے رہا ہے۔ اس علاقے کا قبرستان بھی یکجہتی کا درس دیتاہے۔وجہ یہ ہے کہ  ہندو اکثریتی علاقے میں قبرستان اور مسلم اکثریتی علاقے میں شمشان گھاٹ ہے۔یہ دونوں پورے ملک میں ہندو مسلم اتحاد، بھائی چارے اور باہمی محبت کا پیغام دے رہے ہیں۔

جنازے اور ارتھی کا جلوس ایک دوسرے کی آبادی اور علاقے سے ہوتا ہواجاتاہے۔ ہندوارتھی کومسلم علاقے میں کوئل ندی کے کنارے واقع راجہ ہریش چندر گھاٹ پر لے جاتے ہیں۔

اس گھاٹ کے آس پاس مسلم محلے ہیں۔

اسی طرح مسلم قبرستان حمید گنج میں ہے، جہاں ہندووں کی آبادی ہے۔یہاں مسلمانوں کے قبرستان کی حفاظت ہندو کرتے ہیں۔

گنگاجمنی تہذیب کا شہر قدیم زمانے سے اپنے اس انداز کوقائم رکھے ہوئےہے۔ہم آہنگی کی ایسی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں کے موجودہ ماحول میں اگرچہ سماجی ہم آہنگی کی دیواریں توڑنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، سیاسی فائدے اور نقصان کے لیے لوگوں میں تلخی اور دشمنی کے بیج بوئے جاتے ہیں، لیکن یہ سچ ہے کہ مدنی نگر شہر کی ہندو۔ مسلم آبادی، باہمی تعاون سے اس سازش کوکبھی کامیاب نہیں ہونے دیتی۔

یہاں کے لوگ ارتھی اور جنازے کو ایک دوسرے کے علاقے سے لے جاتے ہیں۔ نہ کبھی کوئی تنازعہ پیدا ہوا اور نہ کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوا۔

مدنی نگر کا شمشان گھاٹ سماجی ہم آہنگی کی ایک مثال ہے۔یہ کہنا ہے ضلع کے معروف پروفیسر ایس سی مشرا کا۔ان کے مطابق ہندوؤں کی ارتھی ایک مسلم اکثریتی علاقے سے گزرکر جاتی ہے۔ میت کو راستے میں رکھ کر پنڈ دان ​​کیا جاتا ہے۔ نہ کبھی کوئی مخالفت ہوئی اور نہ ہی کوئی تنازع۔ اسی طرح مسلم کمیونٹی کا جنازہ ہندو اکثریتی راستے سے ہوتا ہوا قبرستان پہنچتا ہے۔ کبھی کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ یہ روایت برسوں سے جاری ہے۔ یہ ہندو مسلم اتحاد کی منفرد مثال ہے۔

مدنی نگرکے مقامی پہاڑی علاقے میں واقع شمشان راجہ ہریش چندر گھاٹ کے قریب رہنے والے محمد اسرائیل عرف کالو بکسا کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے یہاں اتحادویکجتی دیکھ رہے ہیں۔ شمشان اور قبرستان یہاں کے لوگوں کے لیے اتحاد کی پہچان ہیں۔ ان میں سے کسی بھی جگہ پر آنے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سڑکیں دن رات عوام کے لیے کھلی رہتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ کم عمری میں بنارس سے ڈالٹین گنج آیے تھے۔ یہاں کی باہمی ہم آہنگی کو دیکھ کر انھوں نے اسے ہمیشہ کے لیے اپنی رہائش گاہ بنا لیا۔ ان کے گھر کی دیوار شمشان کی حدود سے لگی ہوئی ہے۔ نہ کبھی کسی قسم کا کوئی جھگڑا ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔

شمس الدین کی عمر 76 سال ہے۔وہ کہتے ہیں بچپن سے لے کر آج تک، مدنی نگر کی ہم آہنگی اس طرح برقرار ہے جیسے پریاگ راج میں گنگا، جمنا سرسوتی کا سنگم۔ مسلم علاقے میں شمشان اور ہندو علاقے میں قبرستان قدیم زمانے سے قائم ہیں۔

یہ سب ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کے درمیان بھائی چارے کی عکاسی کرتا ہے۔ محلہ پرانا گڑھوا روڈ کے رہائشی شمس الدین چوڑی فروش نے کہا کہ یہ شہر ہندو مسلم اتحاد کی منفرد کہانی بیان کرتا ہے۔ شہر میں آج تک شمشان اور قبرستان کا کوئی تنازعہ نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی تنازع ہوگا۔ یہ میری دعا ہے۔