معروف ملی قائد مولانا ریاض احمد خان نہیں رہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-03-2021
امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا قوم ایک بڑے قائد سے محروم ہو گئی
امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا قوم ایک بڑے قائد سے محروم ہو گئی

 

 

 نئی دہلی: تحریک اسلامی سے وابستہ معروف ملی قائد اور سربراہ مولانا ریاض احمد خان کا کل3مارچ 2021کو ممبئی میں انتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ان کے انتقال سے صرف حلقہ جماعت اسلامی ہی نہیں بلکہ پوری ملت میں بے چیبی کی لہر دوڑ گئی۔

امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ مولانا مرحوم صرف جماعت اسلامی ہند کی محفل کو روشن کرنے والے چراغ نہیں تھے بلکہ سرمایہ ملت کے نگہبان تھے۔ عروس البلاد کی بے شمار ملی، دینی، اصلاحی، فلاحی اور تعلیمی تحریکوں کے وہ روح رواں تھے۔ کئی نسلوں نے ان سے بردباری، سنجیدگی و متانت، توازن و اعتدال اور جہد و عمل کے اسباق سیکھے تھے۔

میری زندگی کا وہ اہم ترین دور، جس میں شخصیت کی تعمیر کی بنیادیں فراہم ہوتی ہیں اور اس کا رخ متعین ہوتا ہے، وہ مہاراشٹر میں گذرا۔ کئی بزرگوں نے اس دوران میری شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان بزرگوں میں ایک نمایا شخصیت مرحوم ریاض احمد خان صاحب کی تھی۔ امیر جماعت نے کہا کہ مرحوم کی شخصیت کا سب سے متاثر کن پہلو اس کی جامعیت اور توازن تھا۔

ان کی رسمی تعلیم کم تھی لیکن ابتدائے عمر میں محنت کش پیشہ وارانہ مصروفیت کے باوجود، انہوں نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی تھی۔ عربی زبان جانتے تھے اور دین کے مصادر سے راست استفادے کی قدرت رکھتے تھے۔حالات پر گہری نظر رکھتے اور جدید علمی تحقیقات و اکتشافات سے بھی باخبر رہتے۔ان کے دروس اور تقریریں علمی گہرائی اور نکتہ رسی کے لئے معروف تھیں۔اپنی تصنیفات کے ذریعہ بھی انہوں نے تحریک کو درپی اہم مسائل کو ٹھوس علمی طریقے سے زیر بحث لایا ہے۔ روابط بہت وسیع تھے اور ملت کے ہر حلقے میں ان کا بڑا احترام تھا۔، دینی و اصلاحی کوششیں ہوں یا فلاحی اور سیاسی کام، ہر محاذ سے متعلق ملی سرگرمی پر وہ تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے اور ان پر اثر انداز ہونے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اپنی متوازن سوچ کا جو اثر انہوں نے ممبئی کی ملی قیادت کے مختلف حلقوں پر چھوڑا، اس کی نظیر بہت کم شہروں میں ملتی ہے۔ پھر وہ ایک بے مثل مربی تھے۔نوجوان انہیں دل و جان سے عزیز رکھتے تھے۔ ان سے وابستہ اور ان کے فیض یافتہ نوجوانوں نے تحریکی فکر کے توازن واعتدال کو اس گہرائی سے جذب کیا تھا کہ کوئی مخالف رجحان ان پر اثر انداز نہیں ہوسکتا تھا۔ تصیف، تالیف و دانشوری،عوامی رابطہ و سیاسی و سماجی اثر انگیزی اور تزکیہ و تربیت، تحریکی کاموں کی ان تینوں جہات کا جو امتزاج ان کی شخصیت میں تھا وہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کے خاندان کے کئی افراد مرحوم سے تربیت پاکر تحریک کی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔