حیدرآباد، 13 نومبر (پریس نوٹ)پدمات 16 ویں صدی کی ایک شاہکار صوفی اور رومانوی مثنوی ہے۔ جس کو ملک محمد جائسی 1540ءمیں اودھی زبان میں تحریر کیا تھا۔ یہ ایک تاریخی رومانوی داستان نہیں بلکہ صوفیانہ فلسفے کی عظیم الشان تخلیق ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر پرشوتم اگروال نے کیا۔ وہ جے این یو کے پروفیسر ہیں۔ وہ آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں منعقدہ دو روزہ عالمی اردو، ہندی، عربی اور فارسی کی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ دے رہے تھے۔
پروفیسر پرشوتم اگروال نے اس بات پر گہرے تاسف کا اظہار کیا کہ آج کے نوجوان نسل کے لیے رام کا نام ہو یا اللہ کا نام یہ لڑائی کے نعرے بن گئے ہیں۔ حالانکہ پدماوت کے مصنف ملک محمد جائسی خود کو واضح مسلمان قرار دیتے تھے لیکن انہوں نے چتوڑ گڑھ کی رانی پدمنی اور راجہ رتن سنگھ کی محبت کی داستان ایسے دلچسپ انداز میں لکھی کہ بقول واسو دیو اگروال پدماوت کی بنیاد پر ایک چھوٹی سی رامائن الگ سے لکھی جاسکتی ہے۔ پروفیسر پرشوتم اگروال کے مطابق جائسی نے پدماوت میں اپنی اسلامی معلومات اور روایات اور ہندو معلومات اور روایات کو یکجا کیا ہے۔ ان کے مطابق پدماوت عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کے سفر کی علامتی تشریح ہے۔ ان کے کلام میں ہندو اور اسلامی تصوف کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ وہ وحدت الوجود کے قائل تھے۔ یعنی خدا کو ہر شئے میں موجود مانتے تھے اور انہوں نے محبت کو انسانی روح کی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔
دو روزہ لسانی عالمی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کا دوسرا کلیدی خطبہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ہسٹری کے پروفیسر نیل گرین نے دیا ۔ رسومات کی ہجرت اولیاءکے اعراس اناطولیہ سے دکن تک کے موضوع پر اپنے پُرمغز کلیدی خطبہ میں انہوں نے کہا کہ اسلامی ثقافت اور اسلامی عقائد میں بنیادی فرق ہے۔ان کے مطابق عقائد براہ راست مذہب اور رسوم و رواج سے جڑے ہیں جبکہ اسلامی ثقافت ایک تہذیبی دائرہ ہے جس میں وہ سب کچھ شامل ہے جو مسلم حکمرانوں، تاجروں، صوفیاءاور دانشوروں کے زیر اثر پروان چڑھا ہے۔ چاہے وہ مذہبی ہو یا نہ ہو۔
پروفیسر نیل گرین کے مطابق اسلامی ثقافت اس بات کی شاہد ہے کہ اولیاءکے اعراس کی روایت ترکی سے سفر کرتے ہوءپہلے ہندوستان پھر جنوب میں دکن تک پہنچی ہے۔ ان کے الفاظ میں عرس منانے کی اصل تاریخ خراسان ، وسطی ایشیاءسے ملتی ہے جہاں صوفی ازم کے زیر اثر اس کا آغاز ہوا جب خراسان پر منگول حملہ آور ہوئے تو خراسان کے کچھ قبائل نے سلجوک سلطنت کا رخ کیا اور کچھ قبائل نے ترکی کے مرکزی علاقے کونیا میں پناہ لی۔ مولانا جلال الدین رومی بھی بچپن میں ایسے ہی نقل مکانی کر کے کونیا پہنچے جہاں پر وہ آج مدفن ہیں اور ان کا باضابطہ عرس ہوتا ہے۔ پروفیسر نیل گرین نے عرس کو شادی کی طرح تقریب قرار دیا اور کہا کہ اعراس کے دوران صندل، سماع اور قوالی کی تقاریب نے بین مذہبی بھائی چارہ کو فروغ دیا۔
پروفیسر گرین کے مطابق صوفی ازم زمین اور مذہب کا سنگم ہے۔ خانقاہیں معاشی مراکز ہوا کرتی تھیں۔ صوفی بزرگ زمینی جھگڑے طئے کراتے تھے اور صوفیوں کے مزارات کے گرد شہر آباد ہوئے ہیں۔
پروفیسر سید عین الحسن نے اس عالمی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کی۔ انہوں نے کہا کہ صوفی ازم ہندوستان کی ملی جلی تہذیب کا علمبردار ہے۔ کیونکہ ہر صوفی کی تعلیمات میں دل کا ذکر ہوتا ہے۔ ہم سب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دل کی صرف ایک زبان ہوسکتی ہے اور وہ دھڑکن ہے۔ پروفیسر عین الحسن کے مطابق اردو، ہندی، عربی اور فارسی زبانوں کے اس عالمی کانفرنس میں کلیدی خطبات سننے کے بعد انہیں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ کانفرنس کے سبھی شرکاءاور مقالہ نگار حضرات ایک بہتر اور مؤثر علمی تبادلہ خیال کو یقینی بناکر بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ قبل ازیں افتتاحی اجلاس کے آغاز میں یونیورسٹی رجسٹرار پروفیسر اشتیاق احمد نے خیر مقدمی کلمات کہے اور دو روزہ عالمی کانفرنس کے انعقاد کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی تاریخ میں اس طرح کی عالمی کانفرنس ایک اہم سنگ میل ہے۔ جب دنیا بھر سے نامور اسکالرس اور 4 مختلف زبانوں کے ماہرین ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو رہے ہیں۔ کانفرنس کے کنوینر پروفیسر امتیاز حسنین اور ڈائرکٹر پروفیسر علیم اشرف جائسی نے بالترتیب انگریزی اور اردو میں کانفرنس کے خدو خال بیان کیے جبکہ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر پروفیسر گلفشاں حبیب، ڈین اسکول آف لینگویجس نے ہدیۂ تشکر ادا کیا۔ اجلاس کی کارروائی پروفیسر محمد عبدالسمیع صدیقی، شریک کنوینر نے چلائی۔