اردو صحافت کے دوسوسال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
اردو صحافت کے دوسوسال
اردو صحافت کے دوسوسال

 

 

معصوم مرادآبادی

۔ 27 مارچ اردو صحافت کا سب سے اہم دن ہے کیونکہ ٹھیک 200سال پہلے یعنی 27 مارچ 1822 کو شہرنشاط کلکتہ سے اردوصحافت کا آغاز ہواتھا۔اسی روز ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ملازم پنڈت ہری ہردت نے پہلے اردو اخبار ’جام جہاں نما‘ کی اشاعت شروع کی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان پر انگریزسامراج کا تسلط تھا اور عوام کی بنیادی آزادی سلب کرلی گئی تھی۔ان بے حد مشکل حالات میں جابر حکمراں کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کی ذمہ داری سب سے پہلے اردو صحافت نے قبول کی۔یوں تو اردو صحافت کا آغاز 1822میں کلکتہ سے ”جام جہاں نما‘کی اشاعت سے ہوا لیکن اس کا اصل بانکپن 1837میں ”دہلی اردو اخبار“کی اشاعت کے ساتھ سامنے آیا،جو مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے دہلی سے جاری کیا تھا۔1857کی جنگ آزادی کے دوران اس اخبار نے بہادرشاہ ظفر اور باغی سپاہ کا ساتھ دیا۔1857کی بغاوت کی بے باکانہ رپورٹنگ اور اس عہد کے واقعات کو صحیح تناظر میں پیش کرنے کی پاداش میں ایڈیٹر پر انگریزوں کا عتاب نازل ہوا اور مولوی محمد باقر کو گرفتار کرکے نہایت سفاکی سے شہید کردیا گیا۔یہ وطن عزیز کی آزادی کے لیے کسی صحافی کی طرف سے پیش کی جانے والی اولین قربانی تھی۔اس لیے ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وطن کی آبرو پر سب سے پہلے اپنی جان نثار کرنے والا صحافی بھی اسی اردو زبان نے پیدا کیا جس کی کوکھ سے’انقلاب زندہ باد‘ کے لازوال نعرے نے جنم لیاتھا۔

اردو صحافت ایک بڑے مشن اور مقصد کے تحت وجود میں آئی تھی، اسی لیے آج اپنی ابتدا کے 200سال بعد بھی اس میں مقصد یت اور جرأت اظہار بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو اخبارات ملک،قوم اور سماج کے تئیں زیادہ ذمے داری کا جذبہ رکھتے ہیں اور انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ مادی نقصانات کی قیمت پر بھی وہ اپنے مشن سے دست کش نہیں ہوں گے۔اسی لیے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آج بھی اردو کے متعدد ایسے اخبارات نکل رہے ہیں جو خسارے میں ہیں لیکن انہوں نے حالات کے آگے سپر نہیں ڈالی ہے۔

اردو کے اخبارات ایک طویل عرصے تک نہایت مشکل اور نا مساعد حالات کا مقابلہ کرتے رہے ہیں، اس لیے ان کے کارکنوں میں محنت اور لگن سرشت کے طور پر شامل ہوگئی ہے۔خبروں کی حصولیابی سے لے کر طباعت کے پیچیدہ مسائل تک اردو اخبارات نے ایسا کٹھن دور دیکھا ہے جو بے حوصلہ کردینے کو کافی تھا۔لیکن اردو صحافی نا مساعد حالات اور تکنیکی دشواریوں میں بھی اخبارات کو اپنے خون سے سینچتے رہے۔اردو صحافت مشکل ترین دور سے گزر کر آج جب رنگین طباعت،کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے دور میں پہنچی ہے تو اس میں خود اعتمادی اور خدا اعتمادی کا جذبہ دوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔

موجودہ دور کی اردو صحافت اطلاعاتی ٹیکنا لوجی کے تمام ذرائع کو پورے اعتماد کے ساتھ روبہ عمل لارہی ہے اور گلو بلائزیشن کے اس دور میں اردو اخبارات دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے سے کاندھا ملا کر چل رہے ہیں۔آزادی کے 5سال بعد 1952میں پہلا پریس کمیشن وجود میں آیا جس نے فوری طور پر رجسٹر ار آف نیوز پیپرس آف انڈیا(آراین آئی)کے قیام کی پر زور سفارش کی تاکہ وہ اخبارات کے سرکو لیشن اور اعداد وشمار کی رپورٹ ہر سال وزارت اطلاعات ونشریات کو پیش کرے۔آراین آئی کی اولین رپورٹ 1958میں منظر عام پر آئی جس میں 1957کے اعداد وشمار پیش کیے گئے تھے۔

۔۔19اکتوبر1961کو نئی دہلی میں اردو اخبارات اور کتب کی کل ہند نمائش کے موقع پر وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کہاکہ’’متحدہ ہندوستان میں اردو اخبارت اور جرائد کی مجموعی تعداد415تھی جو تقسیم وطن کے بعد 345رہ گئی یعنی 70اخبارات تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کے حصے میں چلے گئے۔رجسٹر ار نیوز پیپرس آف انڈیا کی پہلی سالانہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 1957میں ہندوستان میں اردو اخبارات اور جرائد کی کل تعداد 513تھی۔یعنی آزادی کے بعد پہلی دہائی میں سخت پریشانیوں کے باوجود اردو اخبارات وجرائد کی تعداد میں 168کا اضافہ درج ہوا۔

- آج اردو اخبارات اعلیٰ درجے کی امپورٹیڈ پر نٹنگ مشینوں پر طبع ہو کر اپنے قارئین سے داد وصول کررہے ہیں۔بہترین تصاویر،لے آؤٹ اور ڈیزائننگ کی مدد سے ان کی طباعت میں انقلابی تبدیلیاں رونماہوچکی ہیں۔ اردو اخبارات نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب ملک کی دیگر زبانوں کی طرح اردو کی طباعت بھی پتھر پر کھدائی کرکے تیار کیے گئے حروف سے ہوتی تھی لیتھوپر نٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد ہی نستعلیق خط کے ذریعے اردو کی چھپائی کا رواج ہوا۔

ایک طویل عرصہ اسی جدوجہد میں گزر گیا اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اردو طباعت کو کتابت سے نجات نہیں ملے گی جو کہ اخبارات کی تیزروی سے قطعی ہم آہنگ نہیں تھی۔ آخر کار اکتوبر1981میں اردو دنیا کو یہ مژدہ سننے کو ملا کہ پاکستان کے روز نامہ ”جنگ“نے اپنے لاہور ایڈیشن کا آغاز نستعلیق ٹائپ پر کمپیوٹر کی مدد سے کردیا ہے۔انگلینڈ کی مونو ٹائپ کارپوریشن کمپنی کے اشتراک سے دو پاکستانی باشندوں مطلوب الحسن سید اور احمد مرزا جمیل نے اس خواب کو تعبیر بخشی۔انھوں نے نوری نستعلیق کے نام سے دنیا کا پہلا اردو سافٹ ویئر ایجاد کرلیا۔ ابتدا میں اس سافٹ ویئر کی قیمت ایک لاکھ 25ہزار تھی اور اسے ہندوستان میں سب سے پہلے جالندھر سے شائع ہونے والے اردو روز نامہ ”ہند سما چار“ نے در آمد کیا تھا۔ اردو سافٹ ویئر کی ایجاد کے بعد جب اخبارات کی کمر کسی قدر سیدھی ہوئی تو انہوں نے اپنی توجہ طباعت اورتزئن کی طرف مبذول کی اور فورکلر طباعت کو اپنا نا شرو ع کیا۔ فوٹو آفسیٹ مشینوں کے ذریعے تصاویر اور مواد کی خوبصورت طباعت نے اخبارات کی شکل وصورت ہی بدل کر رکھ دی۔

اردو صحافت کی دنیا میں ایک اور انقلاب مئی 1992میں اس وقت برپا ہوا جب خبر رساں ایجنسی یواین آئی نے اپنی اردو سروس کا آغاز کیا۔یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی اردو خبررساں ایجنسی تھی اور آج بھی اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔خبروں کی فراہمی کے لیے اردو اخبارات کو انگریزی زبان کی خبر رساں ایجنسیوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا لیکن یو این آئی اردو سروس کے آغاز سے اردو اخبارات کا ایک بڑا دردسردور ہوا۔آج درودرشن اور ریڈیو کے علاوہ ملک کے بیشتراردو روز نامے یواین آئی اردو سروس سے استفادہ کررہے ہیں۔-

اخبار ”ہمدرد“ کے معاون مدیر قاضی عبدالغفار نے کہا تھا کہ ”کسی عقیدے کے بغیر اخبار نویسی محض دکانداری ہے۔صحافت بلاشبہ ایک کاروبار ہے لیکن اس کی مماثلت،تعلیم اور طب کے پیشوں سے ہے۔کسی ناشر کا اسے عام دوکانداری میں بدل دینا اس کی عقیدہ صنفی کو ختم کردیتاہے۔عقیدہ مقصد کا دوسرا نام ہے اور صحافت کا اصولی مقصد عوام کی ذہنی،سماجی،اقتصادی اور اخلاقی تہذیب کاری ہے۔

اس اقتباس کا اگر ہم موجودہ دور کی اردو صحافت پر اطلاق کریں تو دیکھیں گے کہ اردو صحافت آج بھی ایک مقصد اور عقیدے سے وابستہ ہے۔بعض دیگر زبانوں کے اخبارات مقابلہ آرائی کی اندھی دوڑ میں ہر روز صحافتی اخلاقیات اور ذمے داریوں کو پیروں تلے روندرہے ہیں اور یہ اخبارات مکمل طور پر جنس بازار بن کررہے گئے ہیں لیکن اردو صحافت آج بھی خود کو ان آلائشوں سے بچائے ہوئے ہے۔ظاہر ہے صارفیت کے اس دور میں جبکہ انسانی اور اخلاقی قدروں کا تیزی سے زوال ہورہا ہے،ایسے میں اردو اخبارات کا یہ رویہ قابل قدر ہے۔آج بھی اردو کے اخبارات عریاں تصاویر،فحش مواد اور ہیجان انگیز خبروں کے بجائے اخلاقی درس،مذہبی رواداری اور معیاری خبروں سے مزین ہوتے ہیں۔اردو صحافت کی بنیاد میں ایثار وقربانی،محنت ومشقت،جاں سوزی،اصول پسندی، اخلاقیات اور مقصدیت کی جو اینٹیں رکھی گئی تھیں، اردو صحافت آج بھی ان ہی پر کھڑی ہوئی ہے۔