صباح الدین :12 سال بعد ’’باعزت ‘‘ بری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-06-2021
دیر آئے درست آئے
دیر آئے درست آئے

 

 

بنگلور :بنگلور کی سیشن عدالت نے دہشت گردی کے الزامات سے ایک مسلم نوجوان کو اس بنیاد پر خارج کردیا کہ استغاثہ عدالت میں ملزم کے خلاف اس کے مبینہ اقبالیہ بیان کے علاوہ کوئی دوسرا ثبوت پیش نہیں کرسکا۔ دوسری طرف جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہاکہ جب ایسے بے قصور کو پھنسانے والے پولیس اہلکار کو عدالت میں کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا اس وقت ایسے تکلیف دہ واقعات ہوتے رہیں گے۔

جمعیۃ کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی کہا کہ کسی بھی شخص کو سرحد پار کرانا جرم نہیں ہے۔ ملزم پر الزام تھا کہ اس نے ایک ملزم کو سال 2005 میں بنگلہ دیش بارڈر پار کرایا تھا یعنی کہ اس نے ملزم کو بھارت میں داخل ہونے اور بعد میں اسے بھارت سے بنگلہ دیش جانے میں مدد کی تھی۔بنگلور سیشن عدالت کے جج ڈاکٹر کسانپا نائیک نے ملزم محمد حبیب عرف حبیب میاں ساکن اگرتلہ، تریپورہ کو ایڈوکیٹ محمد طاہر کی جانب سے داخل کردہ ڈسچارج عرضداشت پر سماعت کے بعد مقدمہ سے ڈسچارج کردیا۔ ایڈوکیٹ محمد طاہر کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی نے ملزم کے دفاع میں مقرر کیا تھا۔

 دوران بحث ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کو بتایا کہ پولس نے ملزم محمد حبیب کو دیگر ملزم صباح الدین کے مبینہ اقبالیہ بیان کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا جو اس نے لکھنؤ میں سال 2008 میں دیا تھا جس میں اس نے کہا کہ تھا کہ سال 2005 میں وہ تریپورہ گیا تھا جہا ں اس کی ملزم محمد حبیب نے بارڈر کراسنگ میں مدد کی تھی جس کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (بنگلور) میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں صباح الدین اور اس کے دیگر ساتھیوں کا نام آیا تھا۔

ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کو بتایا کہ پولس نے ملزم محمد حبیب کو ایک طویل عرصہ کے بعد 22 /مارچ 2017کو اگرتلہ سے گرفتار کیا تھا اور اس کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی لیکن استغاثہ عدالت میں یہ نہیں بتا سکا کہ ملزم کو اتنی تاخیر سے کیوں گرفتار کیا گیا جبکہ ملزم کو مفرور بھی ڈکلئیر نہیں کیا گیا تھا۔ دوران بحث ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کی توجہ استغاثہ کی جانب سے جمع کئے گئے ثبوت وشواہد کی قانونی حیثیت کی جانب بھی مبذول کراتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے ملزم کو سنی سنائی باتوں یعنی کہ دیگر ملزمین کے بیانات کی روشنی میں گرفتار کیا ہے جس کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔

 ملزم محمد حبیب کی جانب سے داخل کردہ ڈسچارج عرض داشت کی سرکاری وکیل نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ دیگر ملزمین جہادی ذہنیت کے ہیں اور ملزم محمد حبیب نے یہ سب جانتے ہوئے ان کی مدد کی اور انہیں بنگلہ دیش سے ہندوستان آنے اور فائرنگ انجام دینے کے بعد بنگلہ دیش واپس چلے جانے میں مدد کی لہذا ملزم کو مقدمہ سے ڈسچار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دیگر ملزمین کی طرح ملزم کو بھی عمر قیدکی سزا ہوسکتی ہے۔ فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد سیشن عدالت نے ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیا د پر ملزم کو مقدمہ سے ڈسچارج کردیا اور اسے فوراً جیل سے رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے۔واضح رہے کہ بنگلور پولس نے ملزم کو تعزیرات ہند کی دفعات

12-B, 121,121-A,122,123,307,302،

آرمس ایکٹ کی دفعات25,27، دھماکہ خیز ماد ہ قانون کی دفعہ6اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون کی دفعات 10,13,16,17,18,20کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا اور اس پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا جس سے سیشن عدالت نے اسے بری کردیا۔دہشت گردی کے الزام سے بری ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعےۃ علمائے ہند مولانا سید ارشد مدنی نے عدالت کے بے قصور قرار دئے جانے اور مقدمہ سے ڈسچارج کئے جانے پر عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جہاں پولیس اہلکار کسی بے قصور کو جیل میں ڈال دیتے ہیں اور پھر لمبی عدالتی کارروائی کے بعد وہ شخص عدالت سے باعزت بری ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے اور اس طرح ایک سازش کے تحت کسی بھی شخص کی زندگی برباد کردی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب ایسے خاطی پولیس والے کو جوسازش کے تحت کے کسی کو گرفتار کرکے اس کی زندگی برباد کرتے ہیں، اس کے خلاف سخت سزا کا التزام ہونا چاہئے اور جب تک عدالت ایسے پولیس اہلکار کے خلاف سخت کارروائی کی اجازت نہیں دیتی اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

 ناندیڑ اسلحہ ضبطی معاملہ

 دو ملزم بری، تین کو دس سال قید با مشقت

مہاراشٹر کے ناندیڑ ضلع کے مختلف علاقوں سے دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار پانچ ملزمین کے مقدمہ کا آج بالآخیر فیصلہ سنا یا گیا جس کے مطابق عدالت نے ملزمین محمد عرفان غوث اور محمد الیا س محمد اکبر کو ناکافی ثبوت وشواہد کی بنیاد پر مقدمہ سے باعزت بری کردیا جبکہ ملزمین محمد مزمل عبدالغفور، محمد صادق محمد فاروق اور محمد اکرم محمد اکبرکو قصور وار ٹہراتے ہوئے انہیں دس سال قید با مشقت اوردس ہزار جرمانہ کی سزا سنائی، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید ایک سال قید کی سزا کا حکم دیا۔

ملزمین کے مقدمہ کی پیروی جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کے وکلاء ایڈوکیٹ عبدالواہاب خان، ایڈوکیٹ شریف شیخ،ایڈوکیٹ متین شیخ، ایڈوکیٹ انصار تنبولی، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ رازق شیخ،،ایڈوکیٹ ہیتالی سیٹھ، ایڈوکیٹ کرتیکا اگروال، ایڈوکیٹ افضل نواز، ایڈوکیٹ ارشد شیخ و دیگرنے کی تھی جبکہ ایڈوکیٹ عبدالرحیم بخاری اور ایڈوکیٹ قدرت شیخ نے بھی دو ملزمین کو ددفاع کیا تھا۔

 نچلی عدالت کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائیگا، گلزار اعظمی ۔

 استغاثہ کے مطابق ریاستی انسدا ددہشت گرد دستہ (اے ٹی ایس)نے ان ملزمین کو 30 اگست2012 کو ناندیڑ ضلع کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضے سے چار ریوالور سمیت دیگر ہتھیار ضبط کرنے کا دعوی کیا تھا لیکن بیشتر گواہوں کے منحرف ہوجانے سے عدالت نے دو ملزمین باعزت بری کردیا جبکہ بقیہ ملزمین کو قصور وار ٹہرایا ہے، ملزمین کو یو اے پی اے قانون کی دفعات 18,20,38 اور آرمس ایکٹ کی دفعہ 3,5,25,27کے تحت سزا ہوئی۔

awazurdu

 آج جیسے ہی عدالت کی کارروائی کا آغاز ہوا خصوصی جج دنیش کوٹھلیکر نے ملزمین کو کٹہرے میں طلب کرکے انہیں بتایا کہ عدالت نے انہیں قصور وارپایاہے لہذا انہیں کیا کہنا ہے جس پر تینوں ملزمین نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالت انہیں اب تک جیل میں گذارے گئے ایام کو سزا کے طور پر قبول کرکے انہیں راحت دے جسے عدالت نے نامنظور کرتے ہوئے دس سال کی سزا سنائی جس پر ایڈوکیٹ عبدالوہاب خان نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالت ملزمین کو دس سال کی بجائے نو سال کی سزا سنائے تاکہ وہ جیل سے رہا ہوسکیں، انہوں نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے جیل میں قیدیوں کا برا حال ہے، ملزمین نوجوان ہیں اور وہ اصلاح چاہتے ہیں لہذا انہیں اصلاح کا موقع دینا چاہئے۔اسی درمیان سرکاری وکیل پرکاش شیٹی نے عدالت سے گذارش کی کہ ملزمین کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہئے تاکہ نوجوان طبقہ کو پیغام جائے کہ اگر وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونگے تو ان کا انجام ایسا ہی ہوگا۔