تمل ناڈو: مسلم گروپ نے 2064 افراد کی آخری رسومات ادا کیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-06-2021
تمل ناڈو مسلم منیترا کڈگم
تمل ناڈو مسلم منیترا کڈگم" کے رضاکار کووڈ سے مرنے والے افراد کی تدفین کے عمل میں پیش پیش رہے ہیں

 

 

 چینئی

کورونا دور میں جب اپنے بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھے ، " تمل ناڈو مسلم منیترا کڈگم" کے رضاکار کووڈ سے مرنے والے افراد کی تدفین کے عمل میں پیش پیش رہے اور جن کے اہل خانہ کے پاس آخری رسومات کے لئے مناسب وسائل نہیں تھے، اس کی دل کھول کر مدد کی ۔ نیز ، بعض معاملات تو ایسے بھی تھے جب کنبہ کے افراد نے اس خوف سے میت کے ساتھ جانے سے انکار کردیا کہ کہیں وہ بھی متاثر نہ ہوجائیں ۔

تنظیم کے عہدیداروں کے مطابق ان کے 4000 سے زیادہ رضاکاروں نے یکم اپریل سے 25 مئی تک ریاست بھر میں 2،064 افراد کی آخری رسومات میں ، کوو ڈ پروٹوکول کا اہتمام کرتے ہوئے، مدد کی ہے۔ اس سے قبل وبائی مرض کی پہلی لہر کے دوران بھی انہوں نے 1،350 افراد کی آخری رسومات ادا کیں ۔

جمہوری طریقے سے مسلمانوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیم "ٹی ایم ایم کے" اس سے پہلے بھی سونامی کے دوران خون کا عطیہ دینے سمیت متعدد رضاکارانہ سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔

چینئی کے نواحی علاقے میں گومیڈی پنڈی سے تعلق رکھنے والے ٹی ایم ایم کے رضاکار مجیب محمد کہتے ہیں کہ شمشان گھاٹ اور قبرستان میں کارکنان کو بعض مواقع پر وائرس سے متاثر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ ہم پی پی ای کٹ پہنتے ہیں اور حفظان صحت کے اصولوں کی تعمیل کرتے ہیں اور میت کے مذہبی عقائد کے مطابق اس کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔

کچھ معاملات میں جہاں مرنے والے شخص کے اہل خانہ جنازے کے اخراجات پورے نہیں کر پاتے یا ایمبولینس کا معاوضہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے تو ایسی صورت میں تنظیم ہر ممکن مدد فراہم کرتی ہے۔

ٹی ایم ایم کے ریاستی سکریٹری اعجاز احمد کہتے ہیں کہ میں اب کو وڈ کے متاثرین کی آخری رسومات کے حوالے سے دوسرے مذاہب ضوابط سے واقف ہو چکا ہوں۔ کچھ معاملات میں میت کے لواحقین جسم کو چھونے سے کتراتے ہیں تو ٹی ایم ایم کے کے رضا کار آگے آتے ہیں۔

دھرم پوری میں مقیم تنظیم کے ایک رضاکار نظام الدین بتاتے ہیں کہ ہم نے کئی افسوسناک مناظر دیکھے ہیں جس میں کنبہ کے افراد جاں بحق ہونے والے افراد کی لاش کو تدفین گاہ تک نہیں لے جاتے ۔ ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ بھی اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں اس لئے ہم مجبور ہو کر آخری رسوم انجام دینے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ میں وبائی بیماری کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران آخری رسومات اور تدفین کرنے کے ہندو اور عیسائی دونوں مذھب کے رسم و رواج سے واقف ہو چکا ہوں۔