افسانہ میں مختلف ادوار و رجحانات کے تحت تبدیلیاں آئیں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 02-12-2022
افسانہ میں مختلف ادوار و رجحانات کے تحت تبدیلیاں آئیں
افسانہ میں مختلف ادوار و رجحانات کے تحت تبدیلیاں آئیں

 

 

حیدرآباد: افسانے میں اپنے دور کے مسائل اور حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ افسانوں میں مختلف ادوار اور مختلف رجحانات کے تحت تبدیلیاں آئیں۔ ابتداءمیں جہاں رومانیت نظر آتی ہے، پھر اس میں اخلاقیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اسی طرح مختلف نظریات جیسے کلاسیکیت، مابعد کلاسیکیت، جدیدیت، مابعد جدیدیت جیسے رجحانات کا اثر تمام اصناف سخن پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن افسانہ میں یہ اثرات خصوصیت سے موجود ہیں۔ ان خیالات کا اظہارپروفیسر سید عین الحسن نے شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور ساہتیہ اکادمی ،نئی دہلی کے اشتراک سے سی پی ڈی یو ایم ٹی آڈیٹوریم میں منعقدہ قومی سمپوزیم بہ عنوان ”اردو افسانہ : تجزیہ و تنقید“ کے افتتاحی اجلاس میں صدارتی خطاب کے دوران کیا۔

پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ انگریزوں کے دورِ حکومت میں اردو و ہندی ادب میں زمین پر کافی لکھا گیا۔ زمین داروں کا اثر یا انگریزوں کا ہندوستان پر قبضہ اس میں شامل تھا۔ لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ کس طرح غاصب انگریز ہماری زمین پر قبضہ کر رہے ہیں اور ہمیں ان سے آزادی حاصل کرنی ہے۔ اس میں پریم چند کا نام قابل ذکر ہے۔ بعد میں اس موضوع پر فلمیں بھی بنیں۔ افسانہ اس سے اچھوتا نہیں ہے۔ انہوں نے کہانیوں میں شکوک کی گنجائش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شکوک ہوں گے تبھی تحقیق کے ذریعہ یقین پیدا ہوگا۔ عربی ادب کے حوالے سے مثال پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عراقی، مصری، فلسطینی ادب میں ہمیں اسرائیل کے متعلق درد مل جائے گا۔

مہمانِ خصوصی جناب شفیع مشہدی، ممتاز افسانہ نگار اور سابق افسر، بہار ایڈمنسٹریٹو سروس، پٹنہ نے کہا کہ اردو کی موجودہ حالت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے لیے لسانی سطح پر ہمیں کچھ کرنا پڑے گا۔ محض تخلیق سے کام نہیں چلے گا۔ اگر زبان ختم ہوجائے گی تو ایک تہذیب کو نقصان پہنچے گا۔ ہمیں اردو کے کاز کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار نے کہا کہ اس سمینار میں تنقید کے ساتھ تخلیق کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ چنانچہ آج ممتاز افسانہ نگار یہاں موجود ہیں اور ہم ان سے ان کی تخلیقات سماعت کریں گے۔ مہمانِ اعزازی پروفیسر عزیز بانو ڈین اسکول براے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے بھی خطاب کیا۔ صدر شعبہ اردو اور سمپوزیم ڈائرکٹرپروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے استقبالیہ خطاب پیش کیا۔ سمپوزیم کے کنوینر ڈاکٹر فیروز عالم نے موضوع کا تعارف پیش کیا اور شکریہ ادا کیا۔ اس موقعے پر ڈاکٹر رمیشا قمر کی مرتب کردہ کتاب ”اردو کی تیرہ مقبول کہانیاں“ کا اجرا بھی عمل میں آیا۔اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، اسو سی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو، مانو نے کی۔

بعد ازاں سمپوزیم کے تین اجلاسوں میں جناب شفیع مشہدی، جناب سلام بن رزاق، پروفیسر غضنفر، پروفیسر طارق چھتاری، جناب مظہرالزماں خاں، جناب نورالحسنین اور محترمہ قمر جمالی نے افسانے پیش کیے۔پہلا اجلاس پروفیسر طارق چھتاری کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں جناب شفیع مشہدی نے افسانہ ”سنیچر شاہ“، پروفیسر غضنفر نے ”مسنگ مین“ اور محترمہ قمر جمالی نے” پدرم سلطان بود“ پیش کیا۔ ڈاکٹر گل رعنا،پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی اور ڈاکٹر حمیرہ سعیدنے بالترتیب ان افسانوں کا تجزیہ کیا۔اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر محمد امتیاز عالم، ریسرچ آفیسر، آئی ایم سی، مانو نے کی۔ دوسرا اجلاس پروفیسر غضنفر کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں پروفیسر طارق چھتاری نے افسانہ ’’آدھی سیڑھیاں“ اورجناب مظہر الزماں خاں نے ”بستی“ قارئین کی نذر کیا۔ ” آدھی سیڑھیاں“ کا تجزیہ ڈاکٹر سید محمود کاظمی صدر شعبہ ترجمہ، مانو اور ”بستی“ کا تجزیہ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون نے کیا۔اس اجلاس کی نظامت شعبہ کی گیسٹ فیکلٹی ڈاکٹر بدر سلطانہ نے کی۔ آخری اجلاس کی صدارت جناب شفیع مشہدی نے کی۔ اس میں جناب سلام بن رزاق نے” دی پراڈگل سن“ اور جناب نورالحسنین نے ”بھور بھئی جاگو“ کے زیر عنوان اپنے افسانے پیش کیے۔” دی پراڈگل سن“ کا تجزیہ ڈاکٹر اسلم پرویز، مترجم، نظامت ترجمہ و اشاعت اور ”بھور بھئی جاگو“ کا تجزیہ ڈاکٹر محمد زاہدالحق ، اسو سی ایٹ پروفیسر، سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآبادنے کیا۔ ڈاکٹر جابر حمزہ ،گیسٹ فیکلٹی، شعبہ اردو نے اس اجلاس کی نظامت کی۔

جلسے میں شہر سے آئے ہوئے مہمانوں کے علاوہ یونیورسٹی کے اساتذہ، افسران اور طلباء و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔یونیورسٹی کے انسٹرکشنل میڈیا سنٹر نے سمپوزیم کے تمام اجلاسوں کا راست ویب کاسٹ یونیورسٹی کے یو ٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر کیا۔