دنیاکی سب سے مشہورداستان رامائن اور اس کے فارسی تراجم

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 12-10-2021
رامائن کاترجمہ داراشکوہ،جس کاآغازبسم اللہ سے ہوتاہے
رامائن کاترجمہ داراشکوہ،جس کاآغازبسم اللہ سے ہوتاہے

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

اگردنیا کی سب سے مشہورکہانیوں کی فہرست سازی کی جائے تواس میں رامائن کا نام یقیناً سرفہرست آئے گا۔جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ داستان بچے بچے کی زبان پر ہے لیکن دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی،لوگ اس سے واقف ہیں۔

اگرسروے کیا جائے کہ دنیامیں کونسی داستان کو سب سے زیادہ اسٹیج کیا گیاہے؟تو اس میں رامائن کی کہانی ضرور شامل ہوگی۔ دسہرے کے ایام میں ہرسال لاکھوں مقامات پر رام لیلا کے عنوان سے اسے اسٹیج کیا جاتا رہا ہے اور تمام چھوٹے بڑے اسے دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔

رامائن کی مقبولیت اس قدر ہوئی کہ جدید دور میں اس پر فلمیں بنائی گئیں اور سیریل بنے۔ ان فلموں اور ٹی وی سریئلس کو بھی خوب مقبولیت حاصل ہوئی اورٹی آر پی کا یہ عالم تھا کہ جس وقت ان کی ٹیلی کاسٹ ہوتی تھی اس وقت پورے ملک کی رفتار ٹھہرجاتی تھی اور لوگ اپنے تمام کام دھندے چھوڑ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔

awaz

عہداکبری کی رامائن فارسی میں سیتااورہنومان کی پینٹنگ

رامائن ہندووں کی مذہبی کتاب کے طور پر اپنی پہچان رکھتی ہے مگر اسے عام کرنے اور عوام تک پہنچانے میں مسلمانوں کا یوگدان بھی کم نہیں رہا ہے۔یہ جب تک سنسکرت میں تھی تب تک اس تک صرف خواص کی رسائی تھی مگر جب اسے فارسی اور اودھی میں ڈھالا گیا تو سب لوگوں کی دسترس میں آگئی۔

مغل حکمراں جلال الدین محمد اکبر نے کئی سنسکرت کتابوں کے فارسی میں تراجم کرائے اور وہ کتابیں جو پہلے صرف پنڈتوں تک محدود تھیں ان کی رسائی پڑھے لکھے عوام تک ہونے لگی۔

رامائن ابتدائی طور پر سنسکرت میں لکھی گئی تھی۔ عہد اکبری تک اس کاترجمہ کسی بھی عوامی زبان میں نہیں ہوا تھا مگر سب سے پہلے تلسی داس نے اسے اودھی میں منتقل کیا اور اس کے بعد اکبر کے حکم سے اس عہد کے معروف مورخ اور عالم ملا عبدالقادر بدایونی نے اسے فارسی زبان میں ڈھالا۔

awaz

فارسی رامائن کا ایک نسخہ جو نستعلیق رسم الخط میں ہے

اس کے اخراجات سرکار کی طرف سے ادا کئے گئے تھے اور اس کی آرائش وزیبائش کے لئے پینٹنگس بنائی گئیں۔ ممکن ہے اکبر کی اس کاوش کے پیچھے سیاسی مفاد بھی پوشیدہ ہو مگر یہ بڑا کام تھا اور اس کی جانب توجہ کرکے اکبر نے آنے والی نسلوں پر احسان کیا تھا۔

تاریخ میں پہلی بار رامائن کا ترجمہ ہوا تھا اور اس کے بعد بہت سے تراجم ہوتے رہے۔ اب تک دنیا کی بیشتر زبانوں میں رامائن کے ترجمے ہوچکے ہیں اور ساری دنیا میں ترجموں کی مدد سے اس کتاب کو پڑھا اور سمجھا جارہا ہے۔

ممکن ہے کچھ قدیم ترجمے وقت اور حالات کی دستبرد سے محفوظ نہ رہے ہوں مگر جو محفوظ ہیں ان میں صرف فارسی کے ۲۳تراجم دستیاب ہیں اور ان کی کاپیاں کسی نہ کسی لائبریری میں مل جائیں گی۔

awaz

بالمیکی رامائن کے فارسی ترجمہ کا ایک ورق

اصل میں مسلم عہد حکومت اس لحاظ سے خاص تھا کہ اس دور میں قدیم علمی ورثوں اور پرانے تہذیبی عناصر کو محفوظ کرنے کی کوشش ہوئی۔ اس دور کے علمی اور تہذیبی کاموں کا ثبوت وہ علمی وفنی نگارشات ہیں جو آج بھی ساری دنیا کے میوزیموں میں نمائش کے لئے موجود ہیں اور لائبریریوں کی زینت ہیں۔

دلی کے نیشنل میوزیم سے لے کر لندن کے برٹش میوزیم تک اور پٹنہ کی خدا بخش اورینٹل لائبریری سے لے کر امریکہ کی عظیم لائبریریوں تک اس قسم کے نادر نمونے مل سکتے ہیں۔

بدایونی کا ترجمہ رامائن

عہد اکبری میں رامائن کے کئی ترجمے ہوئے تھے، جن میں سب سے نمایاں ملاعبدالقادربدایونی کا ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ ۹۹۲ھ (۱۵۸۴ء) میں شروع ہوا تھا اور چار سال کی طویل محنت کے بعد مکمل ہوا۔اکبر کے درباری ابوالفضل نے لکھا ہے کہ بادشاہ کے حکم سے یہ کام کیا گیا۔

اس وقت ہندی، اردو، انگلش اور تمام ہندوستانی زبانوں میں رامائن کے ترجمے موجود ہیں مگر سب سے قدیم سنسکرت نسخے کی ہوبہونقل وہی نسخہ ہے جسے بدایونی نے فارسی کا جامہ پہنایا تھا۔

رامائن کا ایک قدیم نسخہ عبدالرحیم خان خاناں کا ہے ۔یہ اب بھی ریئرآرٹ گیلری،واشنگٹن میں موجود ہے۔اسے محفوظ رکھنے کے لئے اس کی مائیکرو فلم بنا لی گئی ہے۔

awaz

رامائن مسیحی

عہد اکبری کے رامائن کا ایک قدیم نسخہ ’’رامائنِ مسیحی‘‘ ہے۔ یہ منظوم ترجمہ ہے اورعہد اکبری کی علم نوازخاتون حمیدہ بانو بیگم عرف مریم مکانی کی تحویل میں تھا جو کتابوں کی دلدادہ تھی۔یہ ترجمہ ۱۵۹۳ء میں تکمیل کو پہنچا تھا اور سونے کے پانی سے مذہّب کیا گیا تھا۔

خانِ خاناں والے نسخے کو بھی سونے کے پانی سے سنوارا گیا ہے۔ رامائن مسیحی کو بعد میں نول کشور پریس لکھنو نے شائع بھی کیا تھا۔ اس کا ایک شعر یوں ہے:

گریبانِ زمیں شد ناگہاں چاک

درآمد ہمچو جاں، در قالبِ خاک

فارسی میں بالمیکی رامائن کاایک اہم ترجمہ ایس موہر سنگھ نے کیا تھا جو کہ راجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازم تھے۔ یہ ۱۸۹۰ء میں گنیش پریس لاہور سے شائع ہوا ہے۔

ایک ترجمہ گوپال ولد گوند نے فارسی میں کیا تھا۔ یہ ۱۶۸۱ء میں شروع ہوا تھا اورپانچ سال میں تکمیل کو پہنچا۔

ایک ترجمہ چندرمن بیدلؔ نے کیاجو نثر اور نظم دونوں میں ساتھ ساتھ تھا۔ یہ ترجمہ ۱۶۹۳ء میں تکمیل کو پہنچا تھا۔

اس کے بعد کھتال داس بیدلؔ نے ایک منظوم ترجمہ ’’نگارستان‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ اسے نول کشور پریس نے ۱۸۷۵ء میں چھاپا تھا مگر غلط فہمی کی بنیاد پر اسے مرزا بیدلؔ کی طرف منسوب کردیا گیا تھا۔

۔۱۷۰۵ء میں امرسنگھ نے ’’امرپرکاش‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔

مغل بادشاہ فرخ سیر کے عہد میں پنڈت سمیرچند نے ایک ترجمہ کیا تھا۔

’’خلاصۂ رامائن‘‘ کے نام سے منشی بانکے لعل زرنے ۱۸۸۴ء میں ایک فارسی تلخیص لکھی تھی۔

رائے منشی پرمیشری سہائے مسرورؔ اور لالہ چندر مل چند نے تلسی داس کی رامائن کا ایک ترجمہ کیا، جسے ۱۸۸۱ء میں مطبع مفید عام آگرہ نے شائع کی تھی۔اس کا ٹائٹل تھا ’’وظیفۂ فیض یعنی رامائن فارسی‘‘۔

دیلی داس نام کے ایک صاحب نے تیرہویں صدی ہجری میں رامائن کا فارسی قصیدے میں ترجمہ کیا۔

داراشکوہ کا فارسی ترجمہ رامائن

رامائن کا ایک فارسی نسخہ وہ بھی دستیاب ہوا ہے جو شہزادہ دارا شکوہ کا ہے۔ اس نے تلسی داس کی رامائن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۸۸۹ء میں منشی چراغ دین،سراج دین پریس راولپنڈی سے شائع ہوئی تھی۔ اسے ’’نظم خوشتر‘‘ کا نام دیا گیا تھا اور منظوم ترجمہ ہے۔

جموں یونیورسٹی میں تاریخ کی سینئر استاد سمن جموال کے مطابق دارا شکوہ سنسکرت کا بڑا جانکار تھا اور اس نے متعدد سنسکرت کتابوں کو فارسی میں منتقل کیا تھا۔ جن میں اپنیشد اور رامائن بھی شامل ہیں۔

غور طلب ہے کہ دارا شکوہ کی منظوم رامائن ’’نظم خوشتر‘‘ اس لحاظ سے بھی انوکھی ہے کہ اس کی شروعات بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ہوتی ہے۔

خطاطی اور مصوری بدایونی والے شاہی ترجمے کی اچھے خطاطوں سے خطاطی کرائی گئی ہےاوربہترین قسم کےمصوروں سے تصویریں بنوائی گئی ہیں۔ تصاویر ہند۔مغل اور فارسی مصوری کا شاندار نمونہ ہیں۔

عہدِاکبری میں جہاں بعض کتابو ں کے تراجم ہوئے وہیں ان پر مصوری ور نقاشی بھی کی گئی اور ان کتابوں میں رامائن بھی شامل تھی۔

رامائن کے تمام فارسی ترجمے ہماری مشترکہ ہندوستانی تہذیب کو پیش کرنے والے ہیں۔

ان میں جس قسم کی زبان کا استعمال ہوا ہے اور جس طرح کی علامتیں پیش کی گئی ہیں وہ ہند۔مغل تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں۔