زیر حراست پاکستانی کی شہریت کے لیے عدالت نے مانگا حکومت سے جواب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-03-2022
زیر حراست پاکستانی کی شہریت کے لیے عدالت نے مانگا حکومت سے جواب
زیر حراست پاکستانی کی شہریت کے لیے عدالت نے مانگا حکومت سے جواب

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

سپریم کورٹ نے پیر کو مرکز سے ایک پاکستانی شہری کی حیثیت پر جواب طلب کیا، جو سات سال سے حراستی مرکز میں بند ہے، جبکہ اسلام آباد نے اسے اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ 

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ نے کہا کہ چونکہ پاکستانی شہری کے 5 بچے ہیں اور ان سبھی کے پاس ہندوستان کی شہریت ہے، اس لیے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج اس معاملے پر ہدایات طلب کر سکتے ہیں۔ تاہم ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نٹراج نے کہا کہ اگر پاکستان اسے قبول نہیں کر رہا ہے، تو یہ ہم پر پابند نہیں ہے، مجھے ہدایات لینا ہوں گی کیونکہ یہ معاملہ پہلی بار درج کیا گیا ہے۔

پاکستانی قیدی محمد قمیر کی بیٹی انا پروین کی جانب سے دائر عرضی سماعت کے دوران عدالت نے یہ بات کہی ہے۔ انا پروین نے ایڈووکیٹ سریشتی اگنی ہوتری کے ذریعے الزام لگایا کہ ان کے والد مذکورہ حراستی مرکز میں تقریباً 7 سال سے مقیم ہیں کیونکہ پاکستان اتھارٹی نے انہیں پاکستانی شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

 اس کے علاوہ یہ بھی عرض کیا گیا ہے کہ قمر قانون کے مطابق ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دیں گے اور متعلقہ حکام کو ان تمام خاندان کے افراد کی تفصیلات بھی دیں گے جو حراستی مرکز سے رہا ہونے کی صورت میں سیکیورٹیز کے ذمہ دار ہونگے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ قمر سال 1959 میں ہندوستان میں پیدا ہوئے اور وہ 1967-1968 میں تقریباً 7-8 سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ اپنے رشتہ داروں سے ملنے ویزے پر ہندوستان  سے پاکستان چلے گئے تھے۔تاہم ان کی والدہ کا وہیں انتقال ہو گیا اور وہ اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال میں پاکستان میں ہی رہے۔ جب وہ بالغ ہوئے تو وہ 1989-1990 کے قریب پاکستان کے پاسپورٹ پر ہندوستان آئے۔ یہاں انہوں نے ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ کی رہنے والی شہناز بیگم سے شادی کی جو ہندوستانی شہری تھیں۔اس شادی سے پانچ بچے ہوئے ہیں، جن میں درخواست گزار بھی شامل ہیں اور وہ سب ہندوستانی شہری ہیں۔