جشن عید میلاد النبیﷺ کا بدلتا انداز

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
جشن عید میلاد النبیﷺ کا بدلتا انداز
جشن عید میلاد النبیﷺ کا بدلتا انداز

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

نزول شان حقیقت مرے حضور سے ہے

بشر کی عظمت و عزت مرے حضور سے ہے

عیدمیلادالنبی ﷺ منانےکا رواج تقریباً پوری دنیا میں ہے۔عرب وعجم میں مسلمان ،اس دن کا خاص اہتمام کرتے ہیں،گھروں،محلوں اور گلیوں کی سجاوٹ کرتے ہیں، چراغاں کرتے ہیں،حمدونعت اور ذکرسیرت ومیلاد کی محفلیں منعقد کرتے۔ بیشتر مسلم ملکوں میں عیدمیلاد کا جشن ایک ہفتے تک جاری رہتا ہے۔ جشن عیدمیلادالنبی منانے کا یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے،بس وقت اور حالات کے مطابق انداز بدل گیا ہے۔

بعثت نبوی کا جشن

قرآن کے فرمان کے مطابق اللہ کے رسول کی بعثت، اللہ کا سب سے بڑا انعام واکرام ہے۔ فرمایا گیا کہ ’’اللہ نے مومنین پر احسان کیا کہ ان کے درمیان اپنے رسول کو بھیجا۔‘‘ یہی سبب ہے کہ اہل ایمان ہر دور میں اپنے اپنے ڈھنگ سے بعثت نبوی کا جشن مناتے رہے ہیں۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کا جشن کوئی نئی بات نہیں ہے، بس زمانے کے لحاظ سے طریقے میں فرق آتا رہا ہے۔ انبیاء سابقین کی محفلوں میں بنی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم کی دنیا میں تشریف آوری کا ذکر ہوتا رہا ہے اور پرانی امتیں بھی اس موضوع پر بحث کرتی رہیں ہیں لہذا انہیں محفلوں کو ذکر میلاد پاک کی ابتدائی محفلیں سمجھنا چاہئے۔

میلاد نبوی کی خوشیاں سب سے پہلے مکہ میں بنو ہاشم نے منائیں۔ حضرت عبد المطلب اور جنابِ آمنہ نے آپ کی ولادت پر خوشی کا اظہار کیا۔

تاریخ وسیرت کی بہت سی روایتوں کے مطابق حضرت آمنہ نے ایک خواب کی بنیاد پر آپ کا نام احمد رکھا اور جناب عبد المطلب نے آپ کا نام محمد (ﷺ) رکھا۔ حالانکہ عرب میں اس قسم کے ناموں کا رواج نہ تھا۔ جب لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ کے دادا جان نے جواب میں فرمایا ’’اس لئے کہ میرا پوتا دنیا بھر کی ستائش و تعریف کے شایان قرار پائے۔‘‘ (تاریخ اسلام، مرتبہ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی)

گویا ہر وہ محفل جہاں نام پاک محمد و احمد لیا جائے وہ ذکرو مدح نبوی کی محفل ہے۔

لب پہ آ جاتا ہے جب نامِ جناب

منہ میں گھل جاتا ہے شہد نایاب

وجد میں آ کے ہم اے جاں بیتاب

اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں

عہد نبوی میں ذکر میلاد صحابہ بھی اپنی محفلوں میں نبی محترم صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا کرتے تھے۔ آپ کی آمد کا ذکر، آپ کی رحلت کا تذکرہ، آپ کی شخصیت، فضیلت، نعمت، قدرت ہر پہلو کا بیان۔ یہی کچھ تو احادیث کی کتابوں میں محدثین نے جمع کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ تمام محفلیں ذکر رسول کی محفلیں ہی ہوئیں، خواہ ان کا انعقاد ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو ہو یا سال کے کسی اور دن۔

مگر خاص بارہویں تاریخ کا لحاظ کر کے بھی ذکر رسول کی محفلوں کی کمی نہیں جن میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پیدائش کے تذکرے فرمائے۔

مشکوٰۃ المصابیح، باب فضائل سید المرسلین، فصل ثانی میں ایک روایت حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔

شاید آپ تک خبر پہنچی تھی کہ بعض لوگ ہمارے نسب میں طعن کرتے ہیں، تو آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور پوچھا میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں۔

فرمایا میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو ہم کو بہترین مخلوق میں سے کیا۔ پھر ان کے دو حصے کئے عرب اور عجم۔ ہم کو ان میں سے بہتر یعنی عرب میں سے کیا۔ پھر عرب کے چند قبیلے فرمائے، ہم کو ان کے بہتر یعنی قریش سے کیا۔

پھر قریش کے چند خاندان بنائے، ہم کو ان میں سے سب سے بہتر خاندان بنو ہاشم میں پیدا کیا۔

عہد وسطیٰ میں جشن میلاد

محفل میلاد رسول کا انعقاد خاص ربیع الاول کے ماہ میلاد میں صدیوں پرانی روایت ہے۔ یہی سبب ہے کہ عہد وسطیٰ کے علماء نے بھی اس پر اظہار رائے فرمایا ہے۔

سیرت نبویہ مصری میں لکھا ہے کہ اس روایت کی شروعات سلطان مظفر ابو سعید اربل کے دور میں ہوئی۔ اس عالم،عاقل اور بہادر بادشاہ نے اپنے دربار کے نامور عالم دین حضرت حافظ ابن وحید سے ذکر میلاد رسول پر مبنی ایک کتاب لکھوائی۔ کتاب کا نام تھا ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر۔

بادشاہ نے مصنف کو کتاب کی تصنیف پر ایک ہزار اشرفیاں بطور انعام دیں۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ماہ ربیع النور باعث سرور میں ذکر میلاد کی محفلیں منعقد کرتا تھا۔

علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ سلطان مظفر کی مجلس میں شریک ہونے والے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں نے پانچ ہزار بکریوں اور دس ہزار مرغ کو اہتمام محفل کے لئے ذبح کرتے دیکھا اور اس شاہانہ دربار میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکر میلاد کی نورانی مجلس میں علماء و صوفیۂ زمانہ حاضر ہوتے تھے اور سلطان ایک محفل میں تین لاکھ اشرفیاں خرچ کرتا۔ (سیرت نبویہ مصری)

تفسیر روح البیان پارہ ۲۶ میں محمد رسول اللہ آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ محفل میلاد شریف کرنا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم ہے جبکہ وہ بری باتوں سے خالی ہو۔

امام سیوطی فرماتے ہیں کہ ہم کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت پر شکر کا اظہار کرنا مستحب ہے۔ اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام سیوطی کے زمانے میں محفل میلاد کا رواج تھا اور ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو لوگ خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔

امام ابن جوزی فرماتے ہیں کہ محفل میلاد کی تاثیر یہ ہے کہ اس سے سال بھر امن رہتا ہے۔ ان کا یہ قول اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے دور میں یہ سلسلہ رواج پا چکا تھا۔

امام ابن حجر ہیتمی نے اسے بدعت حسنہ قرار دیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں خلیفہ ہارون رشید کی ماں نے پہلی بار مکہ میں محفل میلاد منعقد کیا تھا۔

برصغیر میں جشن میلاد کی تاریخ

بر صغیر میں جشن میلاد کی تاریخ کب سے شروع ہوتی ہے، پتہ نہیں، البتہ تاریخی کتابوں میں اس سلسلے میں گجرات کے ایک بادشاہ کا ذکر ملتا ہے۔ یہ تھا سلطان محمود شاہ ثانی۔

صوفیہ میں شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اس کا اہتمام کیا کرتے تھے اور بعد کے زمانے کے بزرگوں میں مولانا اشرف علی تھانوی کے پیرومرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اس کے اہتمام کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔

تاریخ کی معروف کتاب مراۃ سکندری (صفحہ 300) کے مطابق بادشاہ گجرات سلطان محمود شاہ ثانی، جشن میلاد کا خاص اہتمام کرتا تھا۔ شہر کے علماء۔ مشائخ اور صلحاء جمع ہوتے اور بخاری شریف پڑھی جاتی۔ تمام لوگ بیٹھ کر سنتے تھے۔

اس موقع پر قسم قسم کے لذیذ کھانے پکائے جاتے۔ علماء و مشائخ کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی تقسیم ہوتے۔ بارہویں تاریخ کو خود سلطان تیار ہو کر آتا اور اپنے ہاتھوں سے پانی گرا کر حاضرین کے ہاتھ دھلاتا۔ بڑے بڑے شاہی امراء طشت میں کھانا لے کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے۔

بادشاہ ننگے پیر اخیر تک کھڑا رہتا اور محفل کے اختتام پر علماء اور مشائخ کی خدمت میں اس قدر نذرانہ پیش کرتا کہ ان کے پورے سال کے اخراجات کے لئے کافی ہوتا۔ سلطان محمود شاہ ثانی کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ اس کے لباس کے لئے سال بھر کے کپڑے حیدر آباد سے منگوائے جاتے اور انہیں دسترخوان کے طور پر استعمال کیا جاتا پھر سال بھر بادشاہ انہیں کپڑوں کو پہنتا۔

یہ وہ دور تھا جب بر صغیر میں جشن میلاد کا رواج عام ہو چکا تھا۔ صوفیاء کرام میں جشن میلاد کے اہتمام کا رواج رہا ہے اور اس معاملے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے والد شاہ عبد الرحیم کا نام لیا جا سکتا ہے۔

شاہ ولی اللہ اپنی کتاب ’’الدرا الثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد ہر سال محفل میلاد کا اہتمام کیا کرتے تھے اور اس موقع پر کھانے پکوا کر لوگوں میں تقسیم کرایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کچھ میسر نہ تھا تو بھنے ہوئے چنے ہی محفل مولود میں تقسیم کر دئیے گئے۔

اس رات والد نے خواب میں دیکھا کہ وہ چنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ خوش نظر آ رہے ہیں۔

جلوس محمدی

جشن عید میلاد النبی کے موقع پر جلوس نکالنے کا رواج بھی لگ بھگ پوری دنیا میں ہے۔

اس کی ابتدا کب ہوئی پتہ نہیں مگر بر صغیر میں یہ بہت عام ہے۔ ایک تاریخی جلوس عید میلاد النبی کا ذکر مولانا شوکت علی اور محمد علی جوہر کے واقعات میں ملتا ہے، جنہوں نے تحریک خلافت کے دوران ممبئی میں نکالا تھا۔

فی الحال ممبئی دلی، کولکاتہ، حیدر آباد جیسے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں یہاں تک کہ قصبات اور دیہاتوں میں بھی یہ عام ہے۔