قارئین کا بہت بہت شکریہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-01-2022
قارئین کا بہت بہت شکریہ
قارئین کا بہت بہت شکریہ

 

 

awazurdu

 

عزیز قارئین !۔

آواز-دی وائس نے اپنا سفرآج سے ٹھیک ایک سال پہلے شروع کیا تھا ،بہت کم عرصے میں یہ ان تمام لوگوں کی آواز بن گیا ہے جو ایک جامع ہندوستان کے تصور میں یقین رکھتے ہیں۔جو ہندوستان کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کی روایات کے پابند ہیں ۔ہمیں خوشی ہے کہ اتنے کم وقت میں آواز دی وائس نے خود کو ایک غیر جانبدار میڈیا گروپ کے طور پر قائم کر لیا ہے۔ یہ سب ہمارے قارئین کی زبردست حمایت اور دلچسپی کے سبب ہی ممکن ہوا ہے۔

ہم آواز-دی وائس کو بہت زیادہ کامیاب بنانے کے لیے اپنے تمام قارئین کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔جب بھی ہم اپنا میل باکس کھولتے ہیں تو ہمیں یا تو اپنے قارئین کے بے شمار میل ملتے ہیں، جو ہمارے کام کی تعریف کرتے ہیں یا ان لوگوں کے جو ہمارے اس پلیٹ فارم یا تحریک سے جڑنا چاہتے ہیں۔

دراصل جب ہم نے یہ سفر شروع کیا تو یہ ایک مشکل کام دکھائی دیاتھا۔ ہم نے جس قسم کے مواد کا تصور کیا تھا وہ دور حاضر میں ناقابل تصور اور ناقابل یقین تھا۔ یہ صحافت کو دیکھنے کا مکمل طور پر ایک نیا انداز تھا۔ جب ہم نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو ہمیں معلوم ہوا کہ لوگ کہانیوں اور بحث و مباحثے میں مصروف ہیں جس نے سیاسی طور پر گرم ماحول میں لوگوں کے درمیان تنازعات اور نفرت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس سوچ نے ہمیں ایک نیا نقطہ نظر دیا اور ہم نے صحافت کو بالکل مختلف نظروں سے دیکھا۔ ایک غیر سیاسی نقطہ نظر اپناتے ہوئے، ہم نے اس کے روشن پہلو کو دیکھا اور اچھی اور مثبت خبروں کو پھیلانے کے لیے کام کیا۔ 

انتہائی باصلاحیت صحافیوں اور تکنیکی ماہرین کی ہماری ٹیم نے قومی دھارے کی صحافت میں اپنی تمام تر اہلیت اور کئی دہائیوں کے تجربے کو ایک نیا انداز تخلیق کرنے کے لیے استعمال کیا۔

صحافت، جس کا مقصد غلط فہمیوں کو دور کرنا اور تمام طبقوں اور فرقوں کے درمیان پل بنانا ہے۔ہم اپنی رپورٹنگ کے ذریعے بہت سے لوگوں کو انصاف دلانے میں کامیاب ہوئے۔

ایسی ہی ایک مثال میں، راجستھان کے وزیر اعلیٰ کا دفتر اب ایک معروف ادیب کی مالی مدد کر رہا ہے۔ ہم نے اس کی حالت زار پر روشنی ڈالی تھی۔

حیدرآباد کی ایک اور مثال ہے، ہندوستانی فوج نے ایک سابق فوجی کی مدد کی، جو 1971 کی جنگ میں لڑچکا تھا۔ لیکن آٹو چلانے پر مجبور تھا۔جب ہم نے اطلاع دی کہ اس کی زندگی تنگ دستی کا شکار ہے۔اس وقت فوج نے اسے سہارا دیا۔ہر طرح کی مدد کی ۔ایسا ایک بار نہیں دو بار ہوا جب فوج نے اسے اس کے گھر جاکر مدد کی اور پھر اسے فوجی ہیڈ کرارٹر میں مدعو کرکے اعزاز سے نوازا گیا۔

مسلم معاشرے سے متعلق کئی اہم مسائل میں ہماری مداخلت نے بامعنی گفتگو کے بیج بوئی۔ ہم نے کمیونٹی میں کووِڈ ویکسینیشن کے خوف کو ختم کرنے، مدارس میں تعلیم کی جدید کاری اور مسلم خواتین کو بااختیار بنانے جیسے کئی اہم امور پر کام کیا۔

 ہم نے اپنے انگریزی، ہندی اور اردو ایڈیشن بیک وقت 23 جنوری 2021 کو شروع کیے تھے۔ اس کے بعد ہم نے اپنا آسامی ایڈیشن یکم نومبر کو شروع کیا۔ ہم بہت جلد دیگر زبانوں میں مزید ایڈیشن شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ سب کچھ ہمارے ان قائد کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا، جو ہر وقت ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم اپنے پروموٹرز کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں، جنہوں نے ہمارے ساتھ بہت مہربانی کی اور صحافت میں اس قسم کے تجربے میں ہماری صلاحیتوں پر بھروسہ کیا۔

 ہمارے ادارتی عملے کا یقین، جس نے اس سوچ پر غیر متزلزل اعتماد ظاہر کیا کہ لوگوں کو جوڑنے کے لیے صحافت کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف اسی یقین کی وجہ سے ہے کہ ہماری ٹیم اپنے قارئین کے لیے بہترین مواد جمع کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

ابتدائی طور پر، ہمارے ایڈیٹرز کو اپنے اسٹرنگرز اور تعاون کنندگان کو قائل کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا کہ ہم مثبت مواد کی تلاش میں ہیں نہ کہ لوگوں کو تقسیم کرنے والے۔ یہ ان کے لیے قدرے حیرت کی بات تھی کیونکہ کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم کو ان سے اس قسم کے مطالبےکی توقع نہیں تھی۔ تعاون کرنے والوں کو ہماری ضروریات کے مطابق کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کرنا پڑیں۔

 جیسے جیسے ہم آگے بڑھے، ہم نے محسوس کیا کہ ہماری طرح کی صحافت کے لیے ایک بڑا طبقہ موجود ہے۔ ہم آہنگ ہندوستانی ثقافت، سماجی ہم آہنگی، اور قربانیوں کی ہماری کہانیاں نہ صرف ہندوستان میں بلکہ کئی دوسرے ممالک میں بھی شامل ہیں۔

ہندوستان، مغربی ایشیا، یورپ اور امریکہ میں ہمارے کافی قارئین ہیں۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ لتھوانیا اور زنزیبار میں بھی ہمارے پڑھنے والوں کی تعداد ہے۔

جامع ہندوستانی ثقافت - گنگا جمنی تہذیب پر مضامین، جو کہ فرقہ وارانہ منافرت کے گھناؤنے ماحول میں پس منظر میں چلے گئے تھے، دنیا بھر میں ہمارے قارئین نے بہت سراہا ہے۔

آواز-دی وائس کے قارئین کے اعداد وشمار اس کے گواہ ہیں۔ایک سال کے مختصر عرصے میں ہم نے 30,000 سے زیادہ اسٹوریز شائع کیں اور ہماری ویب سائٹس پر ایک کروڑ تیس لاکھ افراد نے وزٹ کیا۔

ہم نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی اچھا کام کیا ہے۔ ہماری فیس بک کی رسائی بائیس لاکھ سے زیادہ تھی، ہمیں ۳۹ لاکھ ٹویٹر امپریشن ملے، ہم نے 2500 سے زیادہ ویڈیوز اپ لوڈ کیں۔

ہمیں دوسرے میڈیا ہاؤسز سے ہماری اسٹوریز کے بارے میں استفسارات موصول ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے پلیٹ فارم پر مواد پڑھنے کے بعد متعدد میڈیا ہاؤسز نے فالو اپ اسٹوریز کی ہیں۔

یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہماری طرح کی اسٹوریز کو اب مین اسٹریم میڈیا میں بھی جگہ مل رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ ہماری بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے، کہ ہم دوسروں کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ مثبت اسٹوریز کے لیے سامعین موجود ہیں اور ہر وقت تنقید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

آواز-دی وائس ہندوستانی مسلم معاشرے سے متعلق رجعت پسند مواد کے مقابلے میں بامعنی اور ترقی پسند مواد تیار کرنے کا علمبردار بن گیا ہے۔ ہمیں ہندوستانی مسلمانوں کے روشن پہلووں کو پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

ہم نے ہزاروں اسٹوریز کی ہیں جو نوجوان مسلمانوں کی کامیابیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ ہماری اسٹوریز میں مسلمان مجاہدین آزادی کو پیش کیا گیا ہے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا اور انہیں فراموش کردیا گیا ہے اور ہماری تاریخ میں شاید ہی کوئی قابل تذکرہ ذکر ملے۔

 ہماری ترقی کی کہانی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ہندوستانیوں کی اکثریت امن پسند لوگ ہیں، جو ایک متحد ہندوستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ متحد ہوں گے تو قائم رہیں گے، تقسیم ہوں گے تو شکست خوردہ ہوں گے. جیسا کہ ہندوستان سپر پاور بننے کے لیے اپنا راستہ طے کر رہا ہے، اسے اپنے ساتھی ہندوستانیوں کے درمیان تنازعات اور جھگڑوں کی بجائے امن اور خوشحالی کی ضرورت ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری لانچ کی تاریخ نیتا جی سبھاش چندر بوس کا یوم پیدائش تھی۔یہ ایک شعوری فیصلہ تھا۔خیال یہ تھا کہ اپنے پلیٹ فارم کو شروع کرنے کے لیے قوم پرستی اور سیکولرازم کی اس علامت سے بہتر کوئی موقع نہیں ہو سکتا۔ اس دن جب کہ ہم اپنے ایڈیشن کے ایک سال مکمل ہونے کا جشن مناتے ہیں، ہم نیتا جی کے وژن اور لگن کو سلام کرتے ہیں۔

آخر میں، آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ ہم ایک غیر منافع بخش میڈیا گروپ ہیں۔ ہمیں احساس ہے کہ موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی حالات میں ہمارے سامنے ایک مشکل راستہ ہے۔ ہم اپنی بقا کے لیے آپ کی مسلسل حمایت اور محبت کے منتظر رہیں گے۔ جئے ہند 

 

عاطر خان 

 ایڈیٹر انچیف