سید حسینی: سات سمندر پار سے ہندوستانی بچوں کی مدد کرنے والا مسیحا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
سید حسینی:  سات سمندر پار سے ہندوستانی بچوں کی مدد کرنے والا مسیحا
سید حسینی: سات سمندر پار سے ہندوستانی بچوں کی مدد کرنے والا مسیحا

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

یہ کہانی ایک ایسے انسان کی ہے ،جو بے یارومددگار تھا،تعلیم کا خواہاں تھا مگر وسائل نہیں تھے،لیکن ایسے میں کسی نے اس کو سہارا دیا۔ اس کے تعلیمی خواب کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تعلیم کے سہارے وہ انسان اپنی منزل پا گیا۔بلندی پائی اور اس کا پیشہ اسے ملک سے باہر لے گیا۔ لیکن امریکہ میں مقیم ہونے کے باوجود اس انسان نے ضرورت مند بچوں کی تعلیم کے لیے ایک مشن شروع کیا ۔سات سمندر پار سے اس نے ہندوستان کے ضرورت مندوں بچوں کے لیے سہولیات مہیا کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ اب اس مشن جس کو سیڈ(SEED) کا نام دیا تھا ،ہندوستان کے تقریباً ایک لاکھ ضرورت مند لوگوں کو صحت اور تعلیم کے شعبے میں مالی مدد فراہم کر چکی ہے۔ ان کی تعلیم کی راہ کو سنوارنے کا کام کررہی ہے ۔

یہ ایک این آر آئی کی کہانی ہے، جس نے تعلیم کے لیے نہ صرف اپنا شہر حیدرآباد بلکہ اپنا ملک بھی چھوڑا تھا۔ یہ این آر آئی کوئی اور نہیں سید حسینی کے تعلیمی و سماجی جدو جہد کے سفر کی کہانی ہے،جوسیڈ کےذریعہ ضرورت مندوں تک پہنچنےکی کوشش کررہے ہیں۔

ہندوستان سے ٹیکساس تک کا سفر

سید حسینی نے1972 میں انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ لیکن انہیں اپنےآبائی شہرمیں نوکری نہیں مل سکی۔ روزگار کی تلاش میں انہوں نے مغربی ممالک کا رُخ کیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ انہوں نے انجینئرنگ میں ماسٹرز مکمل کیا۔ اس کے بعد وہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈلاس میں آباد ہوگئے۔

سید حسینی نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ میں نے غربت کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے۔ ایک وقت تھا جب میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ اس وقت نظام چیریٹیبل ٹرسٹ نے مجھے اسکالرشپ کے طور پرکچھ رقم دی تھی، جس کے ذریعے میں نے ہوائی جہاز کا ٹکٹ بک کرایا تھا۔ اس طرح میں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اگر آپ کے پاس پیسےاوروسائل نہیں ہیں توکچھ بننا انہتائی مشکل ہے۔

ڈلاس میں انہوں 26 سالوں تک ایک کارپوریٹ کمپنی میں کام کیا۔ 2007 میں 69 سال کی عمر میں انہوں نے نوکری سے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ اگرنظام چیریٹبل ٹرسٹ کی جانب سے مالی مدد نہ ملی ہوتی تو وہ کچھ نہ ہوتے۔اس بات کو وہ کبھی نہیں بھولے ہیں۔

سیڈ(SEED) کی شروعات

سیدحسینی نے کہا کہ ہندوستان میں بہت سے لوگوں کو مالی مجبوریوں کی وجہ سے اسکول جانے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ میں نے بہت ہی قریب سے دیکھا ہے کہ ہندوستانی شہریوں کے غریب افراد کو رہائش، خوراک اور ادویات کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

غریب اور پسماندہ طلباء کی مدد کے لیے سید حسینی نے ہم خیال لوگوں کے ساتھ 2009 میں امریکہ میں سپورٹ فار ایجوکیشنل اینڈ اکنامک ڈیولپمنٹ (Support for Educational and Economic Development-SEED) کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔

یہ تنظیم امریکی حکومت کی طرف سے رجسٹرڈ ہے۔ ابتدائی دنوں سے ہی اس تنظیم کواہلِ خیر حضرات کی جانب  سے مالی تعاون مل رہا ہے۔ اس کے بارے میں این آر آئی سید حسینی کا کہنا ہے کہ یہ سب کمیونٹی کے اتحاد کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے، میں صرف ایک ذریعہ ہوں۔

ایک چیریٹبل ٹرسٹ کے طور پریہ تنظیم طلباء کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں آباد ہندوستانی کمیونٹی کے دیگر افراد کی زندگیوں کو بھی بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ 

سید حسینی نے کہا کہ اس وقت تنظیم کی جانب سے مختلف پروگرام چلائے جارہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد غریب بچوں کو اسکول جانے میں مدد کرنا ہے تاکہ وہ مستقبل میں روزی روٹی کما سکیں۔ یہ تنظیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھے اور نوجوانوں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے قابل بنائے۔

بیرون ممالک سے مالی تعاون  

یہ تنظیم میڈیا کے مختلف ذرائع سے لوگوں تک اپنی بات پہنچاتی ہے اور اس طرح بہت سے لوگ عطیات دیتے ہیں اور اس سے ضرورت مند لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔ غیر ملکی شراکت ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) کے زیر انتظام این جی اوز کو عطیہ کی یہ رقم دی جاتی ہےتاکہ ضرورت مندوں تک اسے پہنچایا جا سکے۔

سیڈ حیدرآباد میں قائم این اے ایم فاؤنڈیشن(NAM Foundation) ، کولکاتہ میں قائم دی کلکتہ مسلم یتیم خانے (The Calcutta Muslim Orphanage) اور کرناٹک میں قائم زہرہ ویمن اینڈ چلڈرن ویلفیئر ٹرسٹ(Zohra Women and Children Charitable Welfare Trust) جیسی تنظیموں تک امداد پہنچ رہی ہے۔

سید حسینی نے اپنی زندگی میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کیا ہے، جن میں سے ایک چیلنج صحیح سرمایہ کاری کا منصوبہ بنانا ہے۔ امریکہ میں قائم سیڈ چیریٹیبل ٹرسٹ اپنے واضح مقصد کے ساتھ لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مصروف ہے۔

ایسی صورتحال میں بہت سے شراکت دار چیریٹیبل ٹرسٹ میں شامل ہونے کے لیے بورڈ سے رجوع کرتے ہیں۔ اس وقت بورڈ ان شراکت داروں سے پہلا سوال پوچھتا ہے کہ آیا وہ ایف سی آر اے سے تصدیق شدہ ہیں یا نہیں۔ ایف سی آر اے(ٖFCRA) ایک لائسنس ہے جو حکومت ہند کی جانب سے ہندوستانی اداروں کو غیر ملکی فنڈز کی وصولی اور استعمال کو منظم کرنے کے مقصد سے جاری کی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بورڈ چھوٹے پیمانے پر ایک اسکیم شروع کرتا ہے تاکہ پارٹنر کے کام کی صداقت کو چیک کیا جا سکے۔

بے روزگار خواتین اور بچوں کی مدد

سیڈ کے تحت بیوہ اور بے سہارا فیملیزسپورٹ پروگرام  (The Widows & Destitute Families Support programme)سیڈ کا ایک ایسا پروجیکٹ ہے، جو انتہائی سخت حالات میں خواتین کو فائدہ پہنچانے کے لیے کام کرتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت خواتین کومالی مدد اور روزگار فراہم کیا جاتا ہےتاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرسکیں۔

این آر آئی سید حسینی کہتے ہیں کہ آج 550 ہندوستانی خواتین ہماری طرف سے ماہانہ آمدنی اس شرط پر حاصل کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اسکول میں بھی داخل کرائیں گی۔

ایک ہزار سے سات ہزار کے درمیان رقم خواتین کو ماہانہ آمدنی کے طور پر دی جاتی ہے۔ تاہم ، رقم خاندان کی بنیادی ضروریات اور بچوں کی تعداد پر منحصر ہے۔

سن 2014 میں اس تنظیم نے 'زہرہ ویمن اینڈ چلڈرن ویلفیئر ٹرسٹ' کے ساتھ کرناٹک میں رہائشی ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح کیا تاکہ بے روزگار نوجوانوں اور مڈل اسکول چھوڑنے والوں کو ہنر پر مبنی تربیت فراہم کی جا سکے۔ اسی طرح پسماندہ طبقات کے بچوں کے لیے ٹیوشن فیس ادا کی جاتی ہے۔ سال 2021 میں کالج کے کل 800 طلباء کو وظائف دیے گئے ہیں۔

صحت کے شعبے میں کام

سیڈ(SEED) نے صحت کی جانب بھی خاص توجہ دی ہے۔ اس نے ایک این جی اوز کے تعاون سے کلینک بھی شروع کیا ہے۔ حیدرآباد میں ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کے بانی مجتبیٰ عسکری نے ایسی ہی ایک کلینک کے بارے میں بتایا۔

انہوں نے کہا کہ رابعہ کلینک کا نظم ان کے ذریعہ چلایا جاتا ہے اور اسے سیڈ کے ذریعے ہی فنڈ کیا جاتا ہے۔ اس کلینک میں یومیہ 200 مریضوں کو دیکھنے کانظم ہے۔

حیدرآباد کی ایک خاتون سعدیہ نے اپنی بیٹی کاعلاج اسی کلینک میں کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری چھوٹی بیٹی کو حال ہی میں ڈائریا ہوگیا تھا۔ اس کے علاج کے لیے اسپتال میں بڑی رقم کی ضرورت تھی۔ میرے پاس بڑے اسپتال میں علاج کے لیے پیسے نہیں تھے، اس لیے میں نے رابعہ کلنک سے اپنی بچی کا علاج کرایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب میں رابعہ کلنک کی وجہ سے اپنے بچوں کی صحت کے بارے میں پرسکون ہوں۔ میرے خاندان کے تمام افراد ضرورت پڑنے پر کلنک میں جاتے ہیں کیوں کہ یہاں مفت علاج کیا جاتاہے۔

ایک سال میں ایک لاکھ پچاس ہزار افراد کی امداد

حیدرآباد میں اس طرح کے تقریباً 13 پرائمری اور ذیابیطس کلینک ہیں اور ایک کلینک اتر پردیش کے جگدیش پور میں بھی چل رہا ہے۔ اس سال سیڈ نے ہندوستان میں کل ایک لاکھ پچاس ہزار (1,50,000) غریبوں کی مدد کی ہے۔ ان میں سے 18،000 بچوں کو اسکول بھیجا گیا اور 80،000 لوگوں نے مفت طبی خدمات حاصل کیں۔ٹیم سیڈ کی یہ کاوش قابلِ تعریف ہے۔ یہ سچ ہے کہ ٹیم سیڈ کی یہ تمام کوششیں ایک ایسے شہرسے کی جاتی ہیں جو ہندوستان سے بہت دور ہے۔