ویکسینیشن: قانونی طور پر لازمی کرنا چاہتے تھے سرسید

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-10-2021
ویکسینیشن: قانونی طور پر لازمی کرنا چاہتے تھے سرسید
ویکسینیشن: قانونی طور پر لازمی کرنا چاہتے تھے سرسید

 

 

awaz

ثاقب سلیم، نئی دہلی

سرسیداحمدخان کو اکثرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، انہیں ایک ماہرتعلیم کے طور پر تو لوگ یاد کرتے ہیں مگران کی وسیع دانشورانہ صلاحیتوں اور وژن کی تعریف نہیں کرتے ہیں۔ سرسید نے مسلمانوں میں جدید تعلیم کو مقبول بنانے کے لیے جو منظم کوششیں شروع کی تھیں، وہ اسکولوں یا کالجوں کے قیام سے کہیں زیادہ اہم تھی۔

وہ چاہتے تھے کہ ہندوستانی مسلمان سائنسی مزاج، عقلی سوچ اور منطقی استدلال کو فروغ دیں۔ ان کے خیال میں روایتی مذہبی گھرانہ ہی مسلم کمیونٹی کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ تقریباً 150سال گزرنے کے بعد بھی مسلم کمیونٹی کو اس مسئلے کا سامنا ہے۔

دنیا گذشتہ دو سالوں میں، عالمی جنگ کے بعد کے دور کی پہلی بڑی وبا کا مشاہدہ کرچکی ہے۔ جہاں ایک طرف کوویڈ-19نےاس طرح کی بیماریوں کے لیےخود کوتیار کرنےمیں انسانوں کی محدودیت کوعیاں کیا ہے تو دوسری طرف ویکسینیشن کی مختصرمدت میں ترقی جدید سائنس کی فتح کا ثبوت بھی دیا ہے۔بیماری کی وجہ سے ہونے والی تباہی کافی واضح ہے، اب بھی بہت سے لوگ ویکسین کے مخالفت کر رہے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ دنیا ویکسینیشن کو لے کر دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہو۔اس سے قبل بیسویں صدی کے آخر میں چیچک ویکسینیشن کے مسئلے پر لوگ دو متضاد کیمپوں میں بٹے ہوئے تھے۔اس وقت کے بیشتر ہندوستانی قوم پرست رہنما چیچک ویکسینیشن کے خلاف تھے کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ ہندوستانی شہری کے مذہبی معاملات میں انگریزی حکومت کی بے جا مداخلت ہے۔

جب کہ مصلح قوم سرسیداحمد خان کا خیال تھا کہ ہندوستانی شہریوں کو میڈیکل سائنس کی ترقی کو پورے دل سے قبول کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی شہری مذہب کے نام پرہی ویکسینیشن مہم کی مخالفت کر رہے تھے۔اس ضمن میں وائسرائے قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے سرسید احمد خاں نے30 ستمبر1879 کو کونسل میں ویکسینیشن بل پیش کیا، جس میں ویکسینیشن کو قانونی طور پرلازمی بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔

اس بل کو پیش کرتے ہوئے سرسید نے کہا تھا کہ میں انسانیت اور رواداری کی پالیسی کے مطابق اس قانون کو تجویز کر رہا ہوں۔انہوں نے اس وقت جواعداد وشمار پیش کیے تھے،اس سے ظاہرہے کہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران 4.5 لاکھ سے زائد افراد برطانوی زیر کنٹرول ہندوستانی علاقوں میں چیچک سے ہلاک ہو گئے تھے۔ان کا خیال تھا کہ ہندوستان میں ویکسینیشن مہم کی مخالفت نہیں کی گئی لیکن کچھ لوگ ہیں جنہوں نے ویکسین لینے سے انکار کیا، اور وہ دوسروں کو اپنی غلطی کے لیے خطرے میں ڈال رہے تھے۔

انہوں نے یہ دلیل دی کہ انفیکشن پڑوسی سے پڑوسی تک پہنچتا ہےاور جو لوگ اس آفت سے دوچار ہوتے ہیں وہ دوسروں پر اس کا اثر ڈالنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔انہوں نے وائسرائے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مائی لارڈ! اگراس نظریہ کی تائید سائنس کے ناقابل تردید نتائج سے ہوتی ہے تو سوال اب صرف ذاتی آزادی تک محدود نہیں رہا ہے۔

اگر یہ مانا جائے کہ کسی آدمی کو یہ حق ہےکہ وہ چیچک سے مرجائے تو یہاں پر ذاتی آزادی کا کوئی احترام اس انفیکشن کو دوسروں تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا ہے۔ اس لیے ایسی ذاتی آزادی کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔سرسیداحمد خان کی اس تجویز کے بعد اس وقت کے متعدد تعلیم یافتہ ہندوستانیوں نے اس کی مخالفت میں یہ دلیل دی کہ وقت کے ساتھ لوگ ویکسین کے فوائد اور نقصانات سےآگاہ  ہو جائیں گے اوراس طرح ویکسینیشن کو قبول یا مسترد کر دیں گے۔ لہٰذا لوگوں کو رضاکارانہ طور پر ویکسین کے حق میں فیصلہ کرنے کے لیے وقت دیا جانا چاہئے۔

اس پرسرسید نےکہا کہ یہ توقع کرنا کہ لوگ آہستہ آہستہ ویکسینیشن سے حاصل ہونے والے فوائد کو جان لیں گےاور اپنی مرضی سے کسی قانونی دباؤ کے استعمال کے بغیر اس کا سہارا لیں گے، یہ محض خام خیالی ہوگی۔اس موقع پر انہوں نے ایک کہاوت سنائی کہ جب تک تریاق عراق سے لایا جاتا ہے، تب تک سانپ کا زہر باقی نہیں رہتا۔

ویکسینیشن کی مخالفت کرنے والے لوگ پورے ملک کو خطرے میں ڈال رہے تھے۔ ذاتی آزادی کی دلیل اچھی نہیں تھی اور اس لیے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس قسم کے معاملے میں بحث خود کو سادہ سوال میں حل کرتی ہے کہ آیا کمیونٹی کے کسی حصے کی بے حسی یا مخالفت کو پوری کمیونٹی کو محروم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔سرسید نے اپنے ساتھی اراکین اور وائسرائے سے مزید کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اکثریت کی بے حسی اور آبادی کے ایک محدود طبقے کے مبہم اور بے بنیاد تعصبات کے خلاف انسانیت کے مقصد کی وکالت کر رہا ہوں۔

 اگرچہ اس وقت بل کو اس کی اصل شکل میں منظور نہیں کیا جا سکاتاہم یہ سرسید کی دوراندیشی اور انسانیت کے تئیں ہمدردی بین ثبوت ہے۔اور پھر وقت نےیہ ثابت کردیا کہ چیچک کی ویکسینیشن واقعی موثرتھی اوراگراس وقت اسےلازمی قرار دیا جاتا تو یہ ایکٹ لاکھوں زندگیوں کو بچا سکتا تھا جو کہ ہندوستان نے چند دہائیوں میں مذہبی قدامت پسندی کی وجہ سے کھو دی تھی۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم سرسید احمد خان کو نہ صرف صرف تعلیمی ادارہ بنانے والے کے طور پردیکھیں بلکہ انہیں ایک مفکر، فلسفی اور سائنس کمیونیکیٹر کے طور پر تسلیم کریں۔

نوٹ: ثاقب سلیم مصنف اور تاریخ نگار ہیں۔