غلام نبی شیخ:مندرکامسلمان محافظ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-03-2021
غلام نبی شیخ:مندرکامسلمان محافظ
غلام نبی شیخ:مندرکامسلمان محافظ

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

غلام نبی شیخ ایک کشمیری مسلمان ہیں،اسلام کے نظریہ توحید میں یقین رکھتے ہیں۔ نماز کے پابند ہیں مگرپھربھی ایک مندر کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ گزشتہ 30 سالوں سے ،وہ روزانہ نماز فجر کے بعدجب مسجدسے نکلتے ہیں توقریب کے ویران مندرمیں جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ مندرمیں تمام چیزیں جگہ پر ہیں یا نہیں۔ سب ٹھیک ٹھاک ہوتومطمئن ہوکر گھر جاتے ہیں۔ جیادیوی مندران کے گھرکے قریب ہی واقع ہے۔

مندر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری غلام نبی کے کندھے پر اس لئے آگئی کہ جب کشمیرمیں حالات بگڑے اور کشمیری پنڈت اپنے گھر چھوڑ کر وادی کے باہر چلے گئے تو مندرمیں نہ پوجا کرنے والے بچے اور نہ ہی ان کی دیکھ بھال کرنے والے۔ ایسے میں مقامی مسلمانوں نے ہی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھال لی۔ 65 سالہ غلام نبی شیخ اپنے کنبہ کے ساتھ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں واقع بیج بہرہ قصبے میں رہتے ہیں۔

وہ گذشتہ قریب تین دہائیوں سے مقامی مندر کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ان کے اہل خانہ بھی اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں اور مندرکی چابی بھی انھیں کے پاس رہتی ہے۔شیخ ہر ماہ دو تین بار اپنے بیٹے کے ساتھ اس مندر کی صفائی کرتے ہیں۔ اس مندر کو دیکھ کرلگتاہے اس میں سالوں سے کسی نے پوجا نہیں کی ہے۔شایدکوئی ہندو عقیدت مند برسوں سے اس مندر میں نہیں آیا ہوگا،ایسے میں ایک مسلمان کنبہ اس مندر کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

شیخ کو وہ دن نہیں بھولے ہیں جب وہ اپنے ہندو دوستوں کے ساتھ یہاں خوشگوار دن گزارتے تھے اور جب مسلمان اور پنڈت کشمیر میں بطور کنبہ ایک ساتھ رہتے تھے۔ شیخ اور بیج بہار کے دوسرے لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان دنوں میں ، ہر تہوار مندر کے اطراف میں منایاجاتا تھا۔ “خواہ عید ہو ، دیوالی ، ہولی ہو یا کوئی اور تہوار ہو۔ پورے شہر سے یہاں بچے ، جوان ، بوڑھے اور خواتین آتے تھے۔ بچے کھیلتے تھے اور آپس میں گپ شپ لڑتے تھے۔ یہاں دکانیں ہوتی تھیں اور بہت جشن منایا جاتا تھا۔ تب مذہب سے ہٹ کر سب لوگ انسان تھے۔

"بیج بہر میں رہنے والے ایک 70 سالہ غلام حسن نےکہاکہ مندر کے قریب رہنے والے شیخ ہر میلے میں شریک ہوتے تھے ، خواہ وہ مسلمانوں کا تہوار ہو یا پنڈتوں کا۔ جب کہ غلام نبی شیخ کہتے ہیں کہ میرا بچپن اس مندر سے جڑا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ روزگارکی تلاش میں نکلے تو ان کی ملاقات ویش ناتھ زتشی سے ہوئی۔ زتشی کے پاس سیب کا ایک باغ تھا جو مندر سے متصل تھا۔اس کی دیکھ بھال کے لئے انھیں ایک آدمی کی ضرورت تھی تو شیخ نے زتشی کے باغ کی دیکھ بھال شروع کردی۔ چند سالوں کے بعد ، زتشی کی کاوشوں سے ، غلام نبی شیخ کو محکمہ صحت میں ملازمت مل گئی۔ شیخ کہتے ہیں ، لیکن ملازمت کے بعد بھی ، میں نے اس کے باغ میں کام کرنا نہیں چھوڑا۔

ایک دن ، باغ میں کام کرتے ہوئے ، ان کی نگاہ اس مندر کے صحن پر پڑی ، جہاں بہت زیادہ گھاس اگ چکی تھی۔ مندر کے چاروں طرف بڑھتی ہوئی گھاس کاٹنے کے بعد ، شیخ نے وہاں پھولوں کے پودے لگادئے۔اس کے بعد وادی کشمیر میں ایک دور ایسا شروع ہواجس نے ہزاروں جانیں لیں۔ یہ دور اب بھی جاری ہے اور ہزاروں جانیں لے چکی ہیں۔اس طرح پنڈت وادی چھوڑ گئے اور مندر کی دیکھ بھال مسلمانوں کے ذمہ آگئی۔ وادی کے تشددکے سبب شیخ کو بھی اپنا گھر چھوڑناپڑامگروہ پھر واپس آئے اور1994 سے مندرکی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ شیخ کی دیکھ بھال کی وجہ سے ہی مندر بالکل صحیح حالت میں ہے۔

ان کی عمر زیادہ ہورہی ہے اوروہ چاہتے ہیں کہ مندرکے اصل حقدارآکر اس کا ذمہ سنبھالیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مندر کے پاس نشیڑیوں کی بھیڑ رہتی ہے جو ان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ایک مسلمان کے طور پرمندرکی دیکھ بھال کا کام انھوں نے بخوبی کیا،اس بارے میں شیخ کہتے ہیں کہ انہوں نے صحیح کیا۔ اگر خدانخواستہ مسلمانوں کو وادی چھوڑناپڑتاتومسجد کی دیکھ بھال پنڈت ہی کرتے۔