حجاب کے نام پر مذہبی جذبات مجروح کرنا شرمناک: کرناٹک کے مذہبی رہنماوں کا بیان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
حجاب کے نام پر مذہبی جذبات مجروح کرنا شرمناک: کرناٹک کے مذہبی رہنماوں کا بیان
حجاب کے نام پر مذہبی جذبات مجروح کرنا شرمناک: کرناٹک کے مذہبی رہنماوں کا بیان

 

 

بنگلورو: کرناٹک میں ان دنوں حجاب کے معاملہ کو لے کر جس طرح کی فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اس پر ریاست کے تمام مذاہب کے رہنماؤں نے تشویش کااظہار کیا ہے ۔حکومت سے مانگ کی ہے کہ وہ شہریوں کے آئینی حقوق کی حفاظت کرنے کی اپنی ذمہ داری ادا کرے اور کسی بھی حال میں سماج کے اندر انتشار کی کیفیت کو پنپنے نہ دے۔

ریاست کے چتر درگہ ضلع کے مرگا مٹھ کے سربراہ ڈاکٹر شیو مورتی مرگا شرنرونے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں لاگو ہونے والے ڈریس کوڈ کو سماج میں ٹکراؤ کا سبب بننے کا موقع نہیں دیا جا نا چاہئے۔اس معاملہ کی سماعت عدالت میں جاری ہے عدالت کا جو بھی فیصلہ ہو گا تمام اس کو تسلیم کریں گے۔ لیکن اس درمیان سماج میں اس معاملہ کو لے کر جس طرح کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کو ختم کرنے کیلئے حکومت کو متحرک ہونا چاہئے ساتھ ہی تمام مذہبی رہنماؤں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس صورتحال میں عوام کی رہنمائی کریں۔

آرچ بشپ آف بنگلورو کے نمائندہ فادر ویوان نے اس موقع پر اپنے تاثرات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایک مخصوص طبقہ کے مذہبی جذبات کو حجاب کے نام پر مجروح کرنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے وہ تشویشناک ہے۔ ایسے میں حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ تمام طبقات کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنے کیلئے کام کرے۔

آرچ بشپ آف بنگلورو پیٹر مکاڈو کے نمائندہ فادر وینی نے اس موقع پر کہا کہ تعلیمی اداروں میں ڈریس کو ڈ کو لے کر انتشار پیداکرنے اور سماج کے مختلف طبقات میں نفرت کی دراڑ ڈالنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے وہ معاشرے کیلئے کافی تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ حجاب کا مسئلہ ہو یا عیسائی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کا معاملہ، ایسے واقعات سے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ کرناٹک برسوں سے امن کا گہوارا رہا ہے، ایسے واقعات سے سماج میں بدامنی اور سراسیمگی پھیلتی ہے، اسے روکنے کیلئے حکومت کو ضروری قدم اٹھانے چاہئیں۔انہوں نے کہاکہ مذاکرات کے ذریعہ اس معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کی جائے۔

 مولانا تنویر پیراں ہاشمی نے معاشرے میں امن وامان کے برقرار رہنے کی ضرورت سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں شائستہ لباس پہن کر اگر ہماری بچیاں آتی ہیں تو اس کو کسی حلقہ سے اعترا ض نہیں ہو نا چاہئے۔اس معاملہ میں عدالت میں سماعت جاری ہے اور امید ہے کہ عدالت کا فیصلہ عین آئینی تقاضوں کی روشنی میں ہو گا اس لئے سماج کے تمام طبقات سے مذہبی رہنماؤں کی یہی اپیل ہے کہ تحمل سے کام لیں۔مذہبی رہنماؤں کی طرف سے ایک جگہ جمع ہو کر عوام کو پیغام دینے کا مقصد یہی ہے کہ شرپسندو ں کی طرف سے ماحول کو بگاڑنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ ہماری بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو یہ یقینی بنایا جائے۔

 سوامی مادھو چنیا نے کہا کہ ڈریس کوڈ کے معاملہ میں تمام اسکولوں اور کالجوں کے سامنے افراتفری کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔جب تک عدالت کی طرف سے حجاب معاملہ میں قطعی فیصلہ نہیں ہو جاتا اسکولوں کے احاطہ میں کسی طرح کی بدامنی نہ پیدا ہو اس بات کو اسکول کا انتظامیہ اور والدین یقینی بنائیں۔ طلباء اور طالبات کے درمیان دوستی کا جو ماحول ہے وہ حجاب تنازع کی وجہ سے خطرہ میں پڑ گیا ہے،ماحول کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

مولانا شبیر ندوی نے حجاب پہن کر اسکول اور کالج آنے والی طالبات اور استانیوں کو روکے جانے کے واقعات کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی حرکتوں سے سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن وامان متاثر ہو رہا ہے۔انہوں نے حکومت سے مانگ کی کہ یونیفارم کے بارے میں اس نے جو حکم نامہ جاری کیا ہے وہ واپس لے اور عدالت کو اس معاملہ میں فیصلہ کرنے دے۔

اس موقع پر گوی مٹھ کے سربراہ ممڈی سدارامیشور سوامی نے کہا کہ آئین کے تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک پر امن معاشرے میں زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کی طرف سے اس معاملہ میں جو فیصلہ سامنے آئے گا اس سے امید ہے کہ تمام طبقات کو انصاف ملے گا۔ بنیادی ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں امن وامان کو ترجیحی بنیاد پر بحال کیاجائے۔

ایسے ماحول میں جبکہ تعلیمی اداروں میں بد نظمی پیدا ہو گئی ہے بہتر ہے کہ حکومت آن لائن تعلیم کی طرف رجوع کرے اور جب تک حالات سدھر نہیں جاتے، آن لائن تعلیم کا سلسلہ ہی جاری رکھے۔اس موقع پر سلیمان خان، نائب صدر ملی کونسل نے اپنے خطاب میں کرناٹک اور بنگلورو میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کئے اور کہا کہ عدالت کی طرف سے اس معاملہ میں جو عبوری حکم صادر کیا گیا ہے اس کی غلط تشریح کر کے بے وجہ فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے اور طلباء کے ذہنوں میں ایک دوسرے کے تئیں نفرت کا جو ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔