جامعہ رشیدیہ: ایک مدرسہ جس کے پرنسپل ہیں رام

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 11-08-2022
جامعہ رشیدیہ: ایک مدرسہ جس کے پرنسپل ہیں رام
جامعہ رشیدیہ: ایک مدرسہ جس کے پرنسپل ہیں رام

 

 

آواز دی وائس،غازی آباد 

مدرسے کے بارے میں اکثر متنازعہ باتیں کہی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مدارس ملک میں بنیاد پرستی پھیلا رہے ہیں۔ کچھ تو ایک قدم آگے بڑھ کر مدارس کو دہشت گردوں کو پیدا کرنےکی فیکٹریاں قرار دیتے ہیں۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں، انہیں ایک بار ضرور ریاست اترپردیش کے ضلع غازی آباد کے جامعہ ریشیدیہ کودیکھنا چاہئے، جہاں پرنسپل ایک ہندو رام کھلاڑی ہیں۔

 جامعہ رشدیہ یوپی کے صنعتی علاقہ غازی آباد کے لونی میں واقع ایک مدرسہ ہے اور اس مدرسے کے پرنسپل ایک ہندو ہیں۔ ان کا نام رام کھلاڑی ہے۔ وہ اس عہدے پر گذشتہ 15 سالوں سے فائز ہیں۔انہوں نے ہندی میں ایم اے اور بی ایڈ کیا ہے۔ رام کھلاڑی مدارس کو دہشت گردی کی فیکٹریاں کہنے پر مشتعل ہو جاتے ہیں۔ وہ  یہ کہنے والوں کو چیلنج کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے کبھی مدرسہ میں وقت گزارا ہے؟ کیا اس پر آپ نے کوئی تحقیق کی ہے یا سنی سنائی باتوں پر بے لگام باتیں کرتے رہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں اس کی خود ایک مثال ہوں۔ ہم مدارس میں وہی تعلیم دیتے ہیں جو دوسرے اسکول والے دیتے ہیں۔ ہمارے بچے یہاں حجاب پہنتے ہیں، ہم پریر کرتے ہیں، کلمہ پڑھتے ہیں۔ جیسے ہر اسکول کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ ہمارے مدرسے کے بھی  کچھ اصول ہیں۔

آپ کو بتاتے چلیں کہ مدرسہ جامعہ راشدیہ کا قیام 1999 میں صرف 59 طلباء کے ساتھ عمل میں آیا تھا۔اس کا مقصد معاشی طور پر غریب مسلم بچوں کو تعلیم دینا تھا۔آج بھی اس علاقے میں شدید غربت ہے۔دہلی سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس مدرسہ میں اب 800 سے زائد طلباء اور 22 اساتذہ ہیں۔ پنڈت رام کھلاڑی مدرسہ کے پرنسپل  ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کو ہندی بھی پڑھاتے ہیں۔

awazthevoice

رام کھلاڑی ایک طالب کے ساتھ

انہوں نے اس مضمون میں ایم ڈی کیا ہے۔ رام کھلاڑی پچھلے 15 سالوں سے مدرسہ میں ہندی پڑھا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہےکہ مدرسے سے پہلے وہ کئی اسکولوں میں پڑھا چکے ہیں۔ تاہم انہیں یہاں کا ماحول اتنا اچھا لگا کہ اس کے بعد انہوں ںے کسی اور تعلیمی ادارے میں جانے کا رخ نہیں کیا۔ مدرسہ جامعہ رشدیہ کے سربراہ امام نواب علی نے کہا کہ مدرسہ کے قیام کے وقت والدین اپنے بچوں کو یہاں بھیجنے سے ڈرتے تھے کہ پتہ نہیں مدرسہ میں کیا پڑھایا جائے گا۔ تاہم اب مدرسہ کی تمام کلاسیں پوری طرح سے بھری ہوئی ہیں۔ ہم تازہ نامزدگیوں کے لیے جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

رام کھلاڑی کو گزشتہ 25 سالوں سے مختلف اسکولوں میں پڑھانے کا تجربہ ہے۔ لیکن مدرسہ میں پڑھانے کا تجربہ الگ رہا ہے۔ طلباء پیار سے انہیں پنڈت پرنسپل سر کہتے ہیں۔ان کایہ بھی کہنا ہے کہ ان بچوں اور عملے کے درمیان رہ کر انہیں کبھی کوئی مذہبی امتیاز یا رکاوٹ محسوس نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ مدرسہ اور اس کا عملہ ایک خاندان کی طرح ہے۔

رام کھلاڑی کا خیال ہے کہ اپنے حقوق کا استعمال کرنے کے لیے تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ وہ مدارس کو دہشت گردوں کا گڑھ کہنے پر برہم ہو جاتے ہیں- وہ کہتے ہیں کہ تعلیم ہمیں صحیح اورغلط میں فرق بتاتی ہے،جوہم سنتے ہیں وہ جھوٹ ہو سکتا ہے، جو ہم دیکھتے ہیں وہ بھی جھوٹ ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہر معاملہ میں تحقیق ضروری ہے۔

مدرسہ میں قرآن کی تعلیم کے علاوہ ہندی اورانگریزی جیسی زبانیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سائنس کی کلاسیں بھی لی جاتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1994 میں اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی زیرقیادت مرکزی حکومت کی جانب سے شروع کی گئی مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم کےتحت ریاضی، سماجی علوم اور سائنس جیسے مضامین کے تعارف نے طلباء کو مسابقتی داخلہ امتحانات اور ملازمتوں کی تیاری میں مدد فراہم کی ہے۔

awazthevoice

رام کھلاڑی طالبہ کو پڑھاتے ہوئے

اسکول کے داخلی دروازے پر ایک بڑا پوسٹر لگایا ہے جس میں سال 2019 کے ٹاپرز کی تصاویرہیں - اس میں تمام لڑکیاں ہیں۔ رام کھلاڑی اور مدرسہ کے دیگر اساتذہ فخر کے ساتھ ان طلباء کے بارے میں بات کرتے ہیں جو یوپی ایس سی، سول سروسز امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے کچھ طلباء نے پولیس سروس جوائن کیا، جب کہ  بہت سے ڈاکٹر بن چکے ہیں۔ یہاں سے باہر آنے والا ایک طالب علم ایک مقامی اسپتال کا منیجر ہے۔

پسماندہ اور غریب پس منظر کے مسلم بچوں کے لیے پرائیویٹ اسکول میں اپنے بچوں  کو بھیجنا،ان کی دسترس سے باہرہے۔ ان لوگوں کے لیے مدارس اکثر تعلیم کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہاں اساتذہ کا کہنا ہے کہ طلبہ کےخواب بڑے ہیں، ہر کوئی دلچسپی سے پڑھنا چاہتا ہے یہاں کے طلبا میں سے کوئی فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہےتو کوئی استاد، ڈاکٹر، وکیل، آئی اے ایس افسر بننا چاہتا ہے۔

 طلباء نے اپنی ایک گفتگو میں  ملک کے موجودہ حالات اور اس کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

رام کھلاڑی کہتے ہیں کہ ہمارے مدرسہ کا ماحول ملا جلا ہے۔ یہاں مسلمان اور غیر مسلم سبھی مذاہب کے طلبا ہیں۔ کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ آرٹ کی طالبہ 16 سالہ لائبہ انصاری کہتی ہیں کہ یہاں کا ماحول ایسا ہے کہ یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔ جب آپ کا ذہن ایک دوسرے کے خلاف غلط فہمیوں سے بھرا ہوا ہے تو ان چیزوں کو آپ پر کیسے اثر انداز نہ ہونے دیں؟ 

16 سالہ سائنس کی طالبہ مزبا ناز نے کہا کہ ہمیں خود کو بچانا ہے۔ آپ کو دوسرے شخص کو بھی سمجھانا ہوگا۔ یہ نہ ہو کہ وہ سخت ہے تو آپ بھی سخت ہو جائیں ۔ پھر لڑائی ناگزیر ہے۔ ہمیں انہیں پیار سے سمجھانا چاہیے۔

پہلی نظر میں آپ کو مدرسے کی کہانی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک مضحکہ خیز کہانی لگ سکتی ہے، لیکن زیادہ تر کہانیوں کی طرح یہاں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم کے تحت مقرر کردہ رام کھلاڑی اور دیگر اساتذہ کو پچھلے پانچ سالوں سے تنخواہ نہیں ملی ہے وہ صرف 3000 روپے پر گزارہ کر رہے ہیں۔

awazthevoice

طالبہ اور رام کھلاڑی ساتھ ساتھ پڑھ رہے ہیں

رام کھلاڑی کی اہلیہ کی وفات ہو چکی ہے، ان کے دو بچے ہیں - جنہوں نے اس مدرسے سے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنی کم تنخواہ میں زندہ رہنا مشکل ہے۔ بعض اوقات بنیادی ضروریات کو بھی پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود رام کھلاڑی مدرسہ کے اندر ہمیشہ مسکراتے رہیں۔وہ کہتے ہیں کہ لونی میں ہر جگہ انہیں عزت ملتی ہے۔ علاقے کے تمام لوگ عزت دیتے ہیں۔ بچے بھی انہیں اپنے گھرلے جا کران کی ضیافت کرتے ہیں۔ جب اتنی عزت مل رہی ہوتوکوئی کیسےادارہ چھوڑسکتا ہے؟