رادھا کے غم نے ندافاضلی کو شاعربنادیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-03-2021
ندافاضلی
ندافاضلی

 

 

٭ندافاضلی شاعراور نغمہ نگار تھے

٭ندافاضلی کی شاعری میں سیکولرروایات ملتی ہیں۔

٭مذہبی اور نسلی فرق کے ہمیشہ خلاف رہے ندا۔

٭ندانے کم فلموں کے لئے لکھامگرلاجواب لکھا


غوث سیوانی،نئی دہلی

چاہے گیتا بانچئے یا پڑھئے قرآن

تیرا میرا پیار ہی ہر پستک کا گیان

اپنی شاعری کے ذریعے محبت کا یہی پیغام معروف شاعر اور نغمہ نگار ندا فاضلی نے اپنی شاعری کے ذریعے دیا۔وہ ہندوستانی ادب کی سیکولر روایات کے امین تھے۔انھوں نے محبت اور بھائی چارہ کے اسی فلسفے کو آگے بڑھایا جسے امیرخسرو، عبدالرحیم خانِ خاناں، چندربھان برہمن، ملک محمد جائسی ،کبیرداس اور میروغالب نے چھوڑا تھا۔ انھوں نے ”مذہب محبت“ پر زندگی گزاری اور اسی کی تبلیغ بھی کی۔ ان کی نظر میں پیار ،انسانیت اور خدمت خلق سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں:

گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں

کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

ندافاضلی شخص اور عکس

ندافاضلی نے اس قدیم شعری روایت کو آگے بڑھانے کا کام کیا تھا جو ہندوستان میں صدیوں سے جاری تھی۔ندا فاضلی مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر کے رہنے والے تھے مگر انھوں نے ممبئی کو اپنا وطن اقامت بنا لیا تھا۔ ان کی پیدائش 1938 میں 12 اکتوبر (سرکاری ریکارڈ کے مطابق) دہلی میں ہوئی تھی۔ والد مرتضیٰ حسن اور ماں جمیل فاطمہ کے گھر میں وہ تیسری اولاد تھے۔ ماں باپ نے ان کا نام مقتدا حسن رکھا تھا۔ والد خود شاعر تھے۔

بچپن میں وہ گوالیار میں رہے۔ وہیں تعلیم ہوئی۔فسادات سے تنگ آ کر ان کے والدین پاکستان جا کے بس گئے، لیکن ندا نہیں گئے۔ وہ بھارت کی مٹی سے بے حد محبت کرتے تھے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں معاشرے میں پھیلی عدم برداشت کی فضاسے فکر مند تھے مگر انھیں یقین تھا کہ یہ دور بھارتی سماج کا ”مستقل “دور نہیں ہے اور جلد ہی گزر جائے گا۔ کالج کے بعد کام کے لئے جدوجہد شروع ہوئی۔ 1964 میں ممبئی چلے گئے۔

وہاں اخبارات و میگزین میں لکھنے لگے جہاں سے ان کا تعارف ہوااور شناخت ملی۔ 1969 میں اردو شاعری کا پہلا مجموعہ بھی آیا ۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کے کئی شعری مجموعے آئے جن میں شامل ہیں” لفظوں کے پھول“ مور ناچ “ ”آنکھ اور خواب کے درمیان“ ”سفر میں دھوپ تو ہوگی“ ”کھویا ہوا سا کچھ“ اور ”دنیا ایک کھلونا ہے“۔ انھیں ادبی حلقے میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا نیز پدم شری کے اعزاز سے بھی نوازے گئے۔ وہ مشاعروں میں بھی خوب شرکت کرتے تھے اور پسند کئے جاتے تھے۔

محبت نے شاعر بنایا

ندا فاضلی کو محبت نے شاعر بنایا تھا۔ کالج میں ان کے آگے کی صف میں ایک لڑکی بیٹھا کرتی تھی۔ اس سے انہیں التفات محسوس ہونے لگا تھا لیکن ایک دن نوٹس بورڈ پر پڑھنے کو ملا کہ” مس ٹنڈن کا انتقال ہوگیا“یہ پڑھ کر ان کا دل رونے لگا۔ انہیں محسوس ہوا کہ انھیں کچھ ایسا لکھنا چاہئے جو، ان کا غم بیاں کر سکے۔اسی دوران وہ ایک صبح ایک مندر کے پاس سے گزر رہے تھے۔ وہاں انہوں نے کسی کو سورداس کا بھجن گاتے سنا۔

اس میں رادھا کا غم بیان کیا گیا تھا جو کرشن کے متھرا سے دوارکا چلے جانے پر پھلواری سے پوچھ رہی تھیں کہ اے پھلواری کرشن سے دوری کے غم میں تو جھلس کیوں نہیں گئی؟ندا کو لگا کہ ان کے اندر دبا غم کا سمندر باندھ توڑ کر نکل پڑا ہے پھر انہوں نے سورداس، تلسی داس، بابا فرید وغیرہ کو پڑھا۔ ان سے متاثر ہوکرسادہ الفاظ میں لکھنا شروع کیا پھر جب لکھنے لگے تو وہ بے مثال ہوتاگیا۔ انھوں نے اپنے ابا کے انتقال پر جو نظم لکھی، وہ شاید اس کی انتہا تھی۔ اسے پڑھیے اور باپ کی موت پر ایک بیٹے کے جذبات سمجھئے:

تمہاری قبر پر میں

فاتحہ پڑھنے نہیں آیا،

مجھے معلوم تھا، تم مر نہیں سکتے

تمہاری موت کی سچی خبر

جس نے اڑائی تھی، وہ جھوٹا تھا،

وہ تم کب تھے؟

کوئی سوکھا ہوا پتہ، ہوا میں گرکے ٹوٹا تھا

میری آنکھیں

تمہاری منظروں میں قید ہیں اب تک

میں جو بھی دیکھتا ہوں، سوچتا ہوں

 وہ وہی ہے

جو تمہاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی

کہیں کچھ بھی نہیں بدلا،

تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں،

میں لکھنے کے لئے جب بھی ،قلم ،کاغذ اٹھاتا ہوں،

تمہیں بیٹھا ہوا میں

اپنی کرسی میں پاتا ہوں

بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے،

وہ تمہاری

لغزشوں، ناکامیوں کے ساتھ بیٹھاہے،

میری آواز میں چھپ کر تمہارا ذہن رہتا ہے،

میری بیماریوں میں تم

میری لاچاریوں میں تم

تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے،

وہ جھوٹا ہے،

تمہاری قبر میں، میں دفن ہوں

تم زندہ ہو

تم زندہ ہو

تم زند ہ ہو

ملے فرصت کبھی تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا

فلموں میں انٹری

جب 1977 میں ندا فاضلی نے چار فلموں میں گیت لکھنے کے لئے معاہدہ کیا، تب موسیقار راہل دیو برمن کو نئے گیت کار کے ساتھ کام کرنے میں پس وپیش ہو رہا تھا۔ باوجود اس کے پروڈیوسرکے اصرار پر راہل نے ایک مشکل دھن ہارمونیم پر پیش کی اور ندا فاضلی سے بولے کہ آپ اسے ٹیپ کر لیں اور کل کچھ تیاری کے ساتھ آئیں۔ ندا فاضلی نے عاجزی سے کہا کہ ان کے پاس ٹیپ ریکارڈر نہیں ہے اور انہوں نے بحر پکڑ لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بحر پر یہ بول ہوسکتے ہیں اور پھر انھوں نے کچھ موزوں الفاظ بولے”تیرے لئے پلکوں کی جھالر بنو ں“ جو موسیقار کو پسند آئے اور انھیں ہارمونیم پربجاکر گنگناتے ہوئے خوش ہوئے۔ ندا فاضلی نے اس کے بعد متعدد فلموں میں گیت لکھے۔ ان کا پہلا نغمہ ”رضیہ سلطان “کے لئے تھا۔ بالی ووڈ میں پہلا موقع قسمت لے کر آئی تھی۔ فلم پروڈیوسر اور ہدایت کارومصنف کمال امروہوی ان دنوں فلم ”رضیہ سلطان“(ہیما مالنی، دھرمیندر ) بنا رہے تھے۔ اس فلم کے گیت لکھنے کی ذمہ داری جانثار اختر کو دی گئی تھی لیکن ایک دن اچانک اختر صاحب دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

اپنی فلم کے باقی دوگانوں کے لئے کمال امروہوی کو ندا فاضلی کی یاد آئی۔ اس طرح بالی وڈ میں ان کی شروعات ہوئی اور خوب شروعات ہوئی۔اس فلم کے لئے انھوں نے لکھا تھا”تیرا ہجر میرا نصیب ہے“ اور”آئی زنجیر کی جھنکار، خدا خیر کرے۔“ ندا صاحب نے کم فلموں کے لئے لکھا تھا اورانھیں فلمی اوارڈ بھی بہت کم ملے مگر انھوں نے جو کچھ بھی لکھا لاجواب لکھا۔انھوں ے فلمی نغموں میں بھی شاعری کی۔

وہ ایک ایسے زمانے میں نغمہ نگاری کے میدان میں آئے تھے جب فلمی گانوں سے شاعری رخصت ہو رہی تھی۔ ان کی فلمیں تھیں رضیہ سلطان، تمنا، اس رات کی صبح نہیں، ناخدا،آپ تو ایسے نہ تھے، یاترا، سرفروش اور سر۔ انھوں نے لکھا :

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا

یہ پتھر کنکر کی دنیا جذبات کی قیمت کیا جانے

دل مندر بھی ہے، مسجد بھی ہے، یہ بات سیاست کیا جانے،

تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے،

اجنبی کون ہو تم، جب سے تمہیں دیکھا ہے

تیرے لئے پلکوں کی جھالر بنو ں،

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے

انھوں نے مشہور غزل گلوکار جگجیت سنگھ کے پرائیویٹ البم کے لئے لکھا تھا:

دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے

مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے

ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی

پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی

جگجیت سنگھ نے ان کی بہت سی غزلوں کو اپنی آواز دی اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا کام کیاحالانکہ انہوں نے غلام علی کے لئے بھی خوب لکھا ہے۔

سادگی پسند انسان

ندافاضلی انسانیت میں یقین رکھنے والے ایک سادگی پسند شخص تھے۔ان کے سامنے کبھی ہندو، مسلمان کا تنازعہ نہیں رہا۔ ان میں زندگی کے متضاد حالات پر ہنسنے کا مادہ تھا۔ ایک بار دوستوں کی محفل میں انھوں نے یوں ہی کہا میں نے خواب دیکھا ہے کہ چوپاٹی پر کھڑامونگ پھلی کھا رہا ہوں۔ ان کے ایک دوست نے مذاق کیا ارے بھائی کم سے کم خواب میں تو کاجو کھایا کرو۔ ندا فاضلی نے سنجیدگی سے کہا کہ خواب میں کاجو بادام کھائے جا سکتے ہیں، لیکن ان کا ہضم کرنا مشکل ہے۔“

شعراور دوہے

ندافاضلی کے اشعار اور دوہے خوب مشہور ہوئے جن میں چنداس طرح ہیں:

دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ

دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے

گرجا میں، مندروں میں، اذانوں میں بٹ گیا

صبح ہوتے ہی آدمی خانوں میں بٹ گیا

اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا

وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا

میں رویا پردیس میں بھیگا ماں کاپیار

  دکھ نے دکھ سے بات کی بن چٹھی بن تار

ساتوں دن بھگوان کے کیا منگل کیا پیر

جس دن سوئے دیر تک بھوکا رہے فقیر

ندیا سینچے کھیت کو طوطا کترے آم

سورج ٹھیکیدار سا، سب کو بانٹے کام