لاک ڈاون کے بعد کھلنے پر مدارس کو درپیش مسائل

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
دارالعلوم دیوبند+دارالعلوم ندوۃ العلما
دارالعلوم دیوبند+دارالعلوم ندوۃ العلما

 

 

عبدالحئی خان، نئی دہلی/ فیروز خان، دیوبند، سہارن پور

 یکم ستمبر سے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے بڑے مدارس میں بھی درس تدریس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

جس سے اہل ایمان اور اہل علم والے افراد نے راحت کی سانس لی ہے،گزشتہ دو سال سے کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پیدا شدہ صورت نے اپنے شدید تر سماجی اور اقتصادی اثرات کے ساتھ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے لیکن جو تباہی تعلیمی شعبے میں دیکھنے میں آئی، اس کی تلافی ممکن نظر نہیں آتی۔

اس وبا نے جہاں طلبا و طالبات کے تعلیمی کیرئیر کو بری طرح متاثر کیا ہے وہیں اس کا سب سے زیادہ نقصان مدارس کو اٹھانا پڑا ہے،اب جبکہ تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے لیکن ابھی بھی بہت سی چیزیں اور بہت سے مسائل ایسے ہیں جو مدارس انتظامیہ کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں۔

ان میں سب سے بڑا مسئلہ اقتصادی اور معاش کا ہے، کیوں کہ گزشتہ دو سال کے درمیان مدارس کی وہ خاطر خواہ امداد لوگوں کے ذریعہ نہیں ہو سکی جو ماضی میں ہوتی آئی ہے۔

جس کی ایک اہم وجہ کاروبار کا متاثر ہونا بھی ہے،ساتھ ہی لوگوں نے مدارس کے بجائے مقامی سطح پر زیادہ امداد کی،لوگوں کی سوچ تھی کہ جب مدارس بند ہیں اور تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری نہیں ہے تو اس طرف رجوع کیوں کیا جائے۔

اب اس وقت سبھی چھوٹے بڑے مدارس میں سب سے بڑا مسئلہ متبخ اور تنخواہوں کا ہے جس کی وجہ سے ذمہ داران مدارس بہت پریشان ہیں۔

اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد مدارس اسلامیہ کا بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ان کے وسائل کی فراہمی معمول کے مطابق نہیں کی جا سکی جس کے باعث مدارس سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں اہل علم کے قدردان لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس وقت اپنی بھر پور توجہ مدارس کی جانب کریں تاکہ مدارس بحال ہو سکیں۔

دارالعلوم زکریا دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی محمد شریف خان قاسمی کا کہنا ہے کہ مدارس میں صدقات، خیرات اور مالی معاونت کم ہونے سے ان کے معاشی حالات بگڑنے لگے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تمام اسکول فیس کی بنیاد پر اپنے ضروری اخراجات پورے کر لیتے ہیں وہیں مدارس کی ضروریات کی تکمیل چندے سے ہوتی ہے۔

انہوں نے ذرائع آمدنی میں کمی پر مخیر افراد سے تعاون کی اپیل کر تے ہوئے کہا کہ دینی تعلیم کے متلاشی صدقات، زکوٰۃ اور خیرات کے شرعی حقدار ہیں، لوگوں کو ان کی امداد کے لیے آگے آنا چاہیے۔

جامعتہ الشیخ حسین احمد المدنی خانقاہ دیوبند کے مہتمم مولانا مزل علی قاسمی کا کہنا ہے کہ مدارس تو کھل گئے ہیں لیکن حکومت کے ذریعہ جاری کئی گئی کووڈگائڈ لائن کی وجہ سے طلبہ کو دو گز کے فاصلے سے کلاسز میں بیٹھانا پڑ رہا ہے۔

مدرسے کے کمرے چھوٹے ہیں،جس کی وجہ سے سبھی بچے ایک کمرے میں نہیں آ رہے ہیں جس کے سبب طلبہ کے دو گروپس بناکر دو شفٹوں میں ایک سبق کو دو مرتبہ پڑھانا پڑ رہا ہے،جو پریشانی کا باعث ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کورونا عہد میں تعلیم کے حوالے سے افسوسناک پہلو ہمارے سامنے یہ آیاہے کہ اْن لوگوں نے اِس کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جو صاحبِ اختیار تھے۔

یہی وجہ ہے کہ ان دنوں مدارس مالی دشواریوں میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے ہمدردان ملت سے مدارس میں تعاون کی اپیل کی۔

دارالعلوم فاروقیہ دیوبند کے مہتمم مولانا نور الہدی قاسمی بستوی کا کہنا ہے کہ اِس وقت تمام مدارس مالی بحران کا شکارہیں کیونکہ کورونا وائرس کی ابتداء رمضان سے ڈیڑھ دوماہ قبل ہوگئی تھی اور رمضان میں اِس وبا کے شباب پر ہونے کی وجہ سے نقل و حمل کے تمام ذرائع معطل کر دیئے گئے اور روزگار مقفل کر دیئے گئے۔

اِس صورت حال میں مدارسِ اسلامیہ کو جو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اْس کی تلافی بعد میں بھی نہ ہوسکی کیونکہ بعد میں جب حالات معمول پر آنے لگے،کاروباری مخیر حضرات کی اس قدر کمر ٹوٹ چکی تھی کہ وہ جو تعاون پہلے مدارس اسلامیہ کو پیش کرتے تھے،پیش نہ کر سکے۔

مولانا نور الہدی قاسمی بستوی نے اہل خیر حضرات سے مدارس کی زیادہ سے زیادہ مالی امداد کرنے کی اپیل کی۔

اسی دوران مولانافرقان غازی اآباد، قاری شفیق الرحمٰن غازی پور، اور ڈاکٹر عبید الرحمٰن ندوۃ العلما لکھنو جو مختلف مدارس کے ذمہ دار ہیں۔

انھوں نے بات چیت میں بتایا کہ مدارس کو سب سے اہم مشکل یہ ہے کہ ان کے یہاں طلبا کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لیے سماجی دوری کے مسئلے پر قابو نہیں پا رہے ہیں اور والدین کو پوری طرح بیماری کے ختم ہونے کا یقین نہیں ہے۔

اس لیےبھی طلبا کی تعداد بہت کم ہے۔ جب کہ ندوۃ العلما کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ابتدائی درجات کے طلبا کی تعلیم ابھی شروع نہیں کی ہے؛ وہیں ثانوی در جات کی تعلیم کو آن لائن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہیں امید ہے کہ جلد ہی بیماری کے خاتمہ پر انتظامیہ کی جانب سے طلبا کو بلانے کی پوری آزادی ملے گی۔

اسی وقت وہ تعلیم کا مکمل انتظام کر سکیں گے۔