دکن کے وزیراعظم ،درجنوں کتابوں کے مصنف وشاعرکشن پرشاد شاد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-04-2021
کشن پرشادشاد
کشن پرشادشاد

 


کشن پرشادشادؔ حیدرآباد دکن کے تیسویں پردھان منتری تھے۔

لگ بھگ بائیس سال وزیراعظم رہے

وہ 76کتابوں کے مصنف تھے۔

اردو،فارسی کے شاعر تھے۔

عربی وسنسکرت کے بھی عالم تھے۔

تصوف سے گہرالگائوتھا


غوث سیوانی،نئی دہلی

 

اردو زبان، علم وادب کا وہ حسین گلدستہ ہے،جس میں رنگ برنگ کے خوب صورت پھول کھلے ہوئے ہیں۔اس کاحسن اور اس کی دلکشی بھارت میں بسنے والی تمام قوموں کی مرہونِ منت ہے۔اردو میں جہاں کثیرتعداد میں غیر ملکی زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں وہیں خالص ملکی الفاظ کی بھی بھرمار ہے۔ یہ کثرت میں وحدت کی بہترین مثال ہے۔مختلف تہذیبی پھولوں کا عطر مجموعہ۔اردو بھارت کی سرزمین پر پروان چڑھنے والی ایسی زبان ہے جس کے خمیر میں اسی دھرتی کی سوندھی خوشبو کا رچاﺅ ہے۔

لہجہ اس کا خوشبو ہے

بولی جس کی اردو ہے

اردو کے گیسوئے تابدار میں اس کے جن چاہنے والوں نے مشاطگی کی ،ان میں ایک معروف ترین نام مہاراجہ کشن پرشاد شاد کا ہے۔ شاد اردو کا ایک ایسا شیدائی جس نے اردو کی اشاعت میں لازوال کارنامہ انجام دیا۔ شاداردو کا ایک ایسا دیوانہ جس کے لئے اردو ہی نہیں اردو والے بھی اہمیت کے حامل تھے۔ یہی سبب ہے کہ ریاست حیدرآباد جہاں کے وہ وزیرِ اعظم تھے،اردو کے ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کے لئے پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی تھی۔

یہاں حکومت انھیں وظیفے دیتی تھی،ساتھ ہی ان کی دیگر ذمہ داریوں بھی اٹھاتی تھی۔اردو اور اردو والوں کی یہ سرپرستی مہاراجہ کشن پرشاد شاد کی زیر نگرانی کی جاتی تھی۔وہ ان تمام ادیبوں اور شاعروں کو حیدرآباد میں پناہ دیتے تھے،جنھیں مالی دشواریوں کا سامنا ہوتا۔شاد کو ان کی خدمات اور اردو نوازی کے لئے تاقیامت یاد کیا جاتا رہے گا۔

نظام حیدرآباد اوردیگرعمائدین کے ساتھ کشن پرشادشادؔ

ادیب وادب نواز

مہاراجہ کشن پرشاد شادادیب تھے اور ادیب پرور بھی تھے۔ وہ شاعر تھے اور شاعر نواز بھی تھے۔چونکہ وہ ایک بڑے سیاسی عہدہ دار تھے لہٰذاان کے ہاتھ میں بہت سے اختیارات تھے اور ان کا استعمال وہ اکثراردو زبان وادب کے فروغ کے لئے کرتے رہتے تھے۔ مہاراجہ، کشن پرشاد شاد خوش اخلاق،بامروت، سخی اور مشرقی تہذیب کا نمونہ تھے۔ لاکھوں کی جاگیر کے مالک تھے،اونچے عہدے پر فائز تھے مگر اس کے باوجود قرض کے بوجھ تلے دبے رہتے تھے۔

خاندانی امیرووزیراعظم

شاد خاندانی رئیس تھے۔ ان کی پرورش رئیسانہ طریقے سے ان کے نانا راجہ نریندر پرشاد کی زیر نگرانی ہوئی تھی۔ان کے والد راجہ ہری کشن پرشاد بہادر بھی ایک جانے مانے رئیس اور بارسوخ شخص تھے۔ وہ سلطنت عثمانیہ حیدرآباد دکن میں پیشکاری کے عہدے پر فائز تھے۔بعد میں انھیں کی جگہ پر ان کے بیٹے کو پیشکار اور وزیردفاع بنادیا گیا۔کچھ سال بعد وہ ریاست کے مدارالمہام یعنی وزیر اعظم بنے اور پھرصدراعظم بنائے گئے۔گیارہ سال تک صدرِ اعظم رہ کر وہ پیرانہ سالی کے سبب اپنے عہدے سے کنارہ کش ہوگئے۔

ابتداوارتقا

مہاراجہ کشن پرشاد شاد کی ولادت 1864میں ہوئی اور 1940میں انتقال کیا. وہ دومرتبہ ریاست حیدرآباددکن کے وزیراعظم رہے۔ اس عہدے کوتب صدر المہام کہاجاتاتھا۔ وہ پہلی مرتبہ 1901ء سے 1912ء تک اور دوسری مرتبہ 1926ء سے 1937ء تک وزیراعظم رہے۔ یعنی مجموعی طور پر وہ کل تقریباً بائیس سال وزیراعظم کے عہدے پرفائزرہے۔

شادؔ کی حویلی جو،اب اسپتال میں تبدیل ہوچکی ہے

عالم وعلم نواز

شاد عربی، فارسی،اردو اور انگلش کے زبردست عالم تھے اور علم والوں کی قدر کرتے تھے۔ انھیں شعر وسخن کا ذوق اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملاتھا۔ وہ شاعر وں اورادیبوں کی صحبت کو عزیز رکھتے تھے۔شاد شاعری میں داغ کے شاگرد تھے۔ اپنے استاد کے علاوہ بھی بڑے بڑے شعراءسے انھیں استفادہ کا موقع ملا تھا۔ ظہیر دہلوی، سرشار لکھنوی، جلیل، فانی، جوش، ہوش، بیگم، ضیائ، محوی،صغیری، فرحت، عالم، الم، وحید، واصفی اورحسرت جیسے اہل علم وادب کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات رہے تھے۔ مہاراجہ کو نظم ونثر میں دستگاہ حاصل تھی۔

ناول نگاروشاعر

ان کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعدادچھہتر ہے،جن میں ناول اور سفر نامے بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اس دور میں ناول لکھے جب ان کارواج بہت کم تھا۔ شاد قادرالکلام شاعر تھے اور جب شعر گوئی پر آتے تو سینکڑوں اشعار موزوں کردیتے۔انھوں نے حمد،نعت،منقبت اور قصیدے کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی کہیں۔تصوف وعرفان کے مضامین ان کی شاعری میں خوب ملتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

چشم وحدت سے دیکھتا ہوں جدھر

نظر آتا ہے تو ہی تو مجھ کو

شاد نے نعتیں کہیں اور خوب کہیں۔ ان کا اپنا الگ انداز ہے:

مومن جو نہیں ہوں تو میں کافر بھی نہیں شاد

اس رمز سے آگاہ ہیں سلطانِ مدینہ

کافر نہ کہو شاد کو ہے عارف وصوفی

شیدائے محمد ہے وہ شیدائے مدینہ

شادنے رباعیاں بھی کہیں اور بہت خوب کہیں۔ وہ اس میدان میں عمرخیام کے مقلد نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

اے بے وفا کبھی تو تو میری وفا کو دیکھ

میری وفا کو دیکھ پھر اپنی جفا کو دیکھ

بیمار عشق کی ہے دوا وصل یار کا

ناداں طبیبِ درد کو دیکھ اور دوا کو دیکھ

اہل وعیال کے ساتھ شادؔ

غزلوں کی انفرادیت

شاد کی غزلوں کا منفرد رنگ ہے۔اُن کی شاعری اردو کی قدیم علمی روایتوں کو آگے بڑھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ان کے اشعار میں عشق وعاشقی اور شاہد وشراب کا بیان اسی انداز میں ملتا ہے جیسا کہ اردو کے دوسرے شاعروں کے یہاں،مگر اس کے باوجود وہ دوسروں سے کچھ الگ نظر آتے ہیں کیونکہ ان کا اپنا منفرد انداز بھی ہے۔ان کی شاعری میں پاکیزگی کا عنصر نظرآتا ہے۔شاد کی آواز اپنے دور کی ایک ایسی آواز ہے،جسے بہت دور سے پہچانا جا سکتا ہے۔

کِس زمانے میں مجھے غم سے سروکار نہ تھا

کون سے روز مجھے رنج کا آزار نہ تھا

اے فلک تونے ستم ڈھائے ہیں لاکھوں مجھ پر

اِس سزا کا تو کسی طرح سزاوار نہ تھا

راہِ کعبہ چھوڑ کر جاتے ہیں میخانے کو ہم

توڑ کر ظرف وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم