یوم جمہوریہ 2022: صدر رام ناتھ کووند کا قوم کے نام پیغام

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-01-2022
یوم جمہوریہ 2022:  صدر رام ناتھ کووند کا قوم کے نام پیغام
یوم جمہوریہ 2022: صدر رام ناتھ کووند کا قوم کے نام پیغام

 


آواز دی وائس، نئی دہلی 

عزیز ہم وطنو! نمسکار!

73ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر ہندستان میں اور بیرون ملک، آپ سب کو میری طرف سے دلی مبارک باد۔ یہ جشن منانے کا ایک موقع ہے جو ہم سب کے لئے مشترک ہے۔ یعنی ہماری ہندوستانیت۔ سنہ 1950 میں یہ آج ہی کا دن تھا جب ہم سب کے اس مقدس جوہر نے ایک باقاعدہ شکل اختیار کی تھی۔ اسی دن ہندوستان سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر قائم ہوا تھا اور ’ہم عوام‘ نے ایک ایسے آئین کو نافذ کیا جو ہمارے اجتماعی وژن کا ایک الہامی دستاویز ہے۔

ہماری جمہوریت کی یکجہتی اور تنوع کی دنیا بھر میں ستائش کی جاتی ہے۔ یہ اسی اتحاد اور ایک قوم ہونے کا جذبہ ہے جسے ہم ہر سال یوم جمہوریہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس سال کی تقریبات جاری وبا کے باعث کچھ کم ہوسکتی ہیں لیکن ہمارا جذبہ ہمیشہ کی طرح انتہائی مستحکم ہے۔ آئیے ہم ان عظیم مجاہدین آزادی کو بھی یاد کریں جنہوں نے سوراج کے خواب کی تکمیل کی تعمیل میں بےمثال ہمت و شجاعت کا مظاہرہ کیا تھا اور اس جدوجہد کے لئے لوگوں کو ترغیب دی تھی۔

دو دن پہلے ہی 23 جنوری کو ہم سب نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کی 125ویں یوم پیدائش منائی جنہوں نے ’جے ہند‘کے پرجوش سلام کو اپنا نعرہ بنایا تھا۔ ان کی آزادی کے لئے جستجو اور ہندستان کو قابل فخر بنانے کی ان کی خواہش، ہم سب کو ترغیب دیتی ہے۔ ہم بے انتہا خوش قسمت ہیں کہ اس قانون ساز اسمبلی میں جس نے دستاویز تیار کی تھی، اس میں اس دور کے نسل کے بہترین ذہن شامل تھے۔ وہ ہماری عظیم آزادی کی جدوجہد کے سرکردہ روشن چراغ تھے۔ طویل برسوں کے بعد ہندستان کی روح دوبارہ بیدار ہورہی تھی اور یہ غیر معمولی مرد و خواتین ایک نئی صبح کے محور تھے۔

انہوں نے عوام کی جانب سے ہر ایک مضمون، ہر ایک جملے اور یہاں تک کہ ہر ایک لفظ پر بحث کی۔ یہ سلسلہ تقریباً تین سال تک جاری رہا۔ اور آخر کار یہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر ہی تھے ، جنہوں نے مسودہ سازی کمیٹی کے صدر نشیں کے طور پر، حتمی خاکہ تیار کیا, جو ہمارا بانی دستاویز بن گیا ہے۔ ایک جانب آئین کا متن، جو ریاست کے کام کی تفصیلات سے متعلق ہے ، کافی طویل ہے، البتہ اس کی تمہید اس کے رہنما اصولوں یعنی جمہوریت، انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کا خلاصہ کرتی ہے۔ وہ ایسی بنیاد وضع کرتے ہیں جن پر ہماری جمہوریت قائم ہے۔ یہ وہ اقدار ہیں جو ہماری اجتماعی وراثت کی تشکیل کرتی ہیں۔

ان اقدار کو، ہمارے آئین میں شہریوں کے بنیادی حقوق اور بنیادی فرائض کی شکل میں فوقیت دی گئی ہے۔ حقوق و فرائض، دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ شہریوں کی جانب سے آئین میں بنیادی فرائض کی پابندی، بنیادی حقوق سے لطف اندوز ہونے کے لئے سازگار ماحول پیدا کرتی ہے۔ اسی لئے جب ایسا کرنے کے لئے کہا گیا ، قومی خدمت انجام دینے کے بنیادی فرض کو پورا کرتے ہوئے، ملک کے کروڑوں لوگوں نے سوچھ بھارت ابھیان اور کووڈ سے بچاؤ کی ٹیکہ کاری کی مہم کو عوامی تحریکوں میں بدل دیا ہے۔ اس طرح کی مہمات کی کامیابی کا اصل سہرہ ہمارے فرض شناس شہریوں کو جاتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ ہمارے عوام قومی مفاد کی مہمات کو اپنی فعال شراکت سے تقویت دیں گے اور اسی طرح کے جذبے کا اظہار کریں گے۔ ہندستان کاآئین 26 نومبر 1949 کو قانون ساز اسمبلی کے ذریعہ منظور اور نافذ کیا گیا تھا جسے اب ہم ’یوم آئین‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ البتہ اسے دو ماہ بعد نافذ کیا گیا تھا۔ یہ 1930 میں اس دن کے موقع پر کیا گیا تھا جب ہندوستان نے مکمل آزادی حاصل کرنے کا عزم کیا تھا۔ 1930 سے 1947 تک، ہر سال 26 جنوری کو ’پورن سوراج ڈے‘ کےطور پر منایا جاتا تھا اور یہ وہی دن تھا جس کا انتخاب آئین کا نفاذ کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ 1930 میں ایک تحریر میں مہاتما گاندھی نے عزیز ہم وطنوں کو مشورہ دیا تھا کہ ’پورن سوراج ڈے‘کو کیسے منایا جاناچاہئے۔

انہوں نے کہا تھا اور میں اسے یہاں نقل کرتا ہوں: ’’یاد رکھیئے کیونکہ ہم اپنی منزلعدم تشدد اور سچے طور طریقوں سے حاصل کرنا چاہتےہیں، تو ایسا ہم صرف تزکیہ نفس کے ذریعہ ہی کرسکتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اس دن کو ایسے تعمیری کام کرنے کے لئے وقف کرنا چاہئےجو کہ ہمارے اختیار میں ہے‘‘۔ یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ ، گاندھی جی کا مشورہ زندہ جاوید ہے۔ یقیناً وہ یہ چاہتے ہوں گے کہ ہم یوم جمہوریہ بھی اسی انداز میں منائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ ہماپنے نفس میں جھانکیں، اپنی ذات کا جائزہ لیں اورایک بہتر ہندوستاناور ایک بہتر دنیا کی تشکیل میں اپنی حصہ رسدی کریں۔

عزیز ہم وطنو! دنیا کومدد کی اتنی کبھی ضرورت نہیں پڑی جتنی کہ اس وقت ہے۔ دو برس سے زیادہ کی مدت گذر چکی ہےاور انسانیت ابھی تک کورونا وائرس سے نبردآزما ہے۔ لاکھوں جانیں تلف ہوچکی ہیں اور عالمی معیشت اس وبا کے اثرات سے دوچار ہے۔ دنیا کو بے مثال مصائب کا سامنا ہے اور نئے قسموں کے اضافوں کے بعد یہ نئےنئے بحرانوں کو جنم دے رہا ہے۔ وبائی امراض کے متعلق انتظام ،ہندوستان میں سب سے زیادہ مشکل رہا۔

ہمارے یہاں آبادی کی بڑی تعداد ہے اور ایک ترقی پذیر معیشت کے طور پر ہمارے پاس اس نادیدہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے ضروری درکار وسائل اور بنیادی ڈھانچے کے پورے وسائل نہیں تھے لیکن یہ ایسے مشکل وقت میں ہی ہوتا ہے جب کسی قوم کی لچک چمک مارتی ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت فخر ہے کہ ہم نے کورونا وائرس کے خلاف بے مثال عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ پہلے سال میں ہی ہم نے نہ صرف صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دی بلکہ دوسروں کی مدد کے لئے بھی آگے بڑھے۔

دوسرے سال تک ہم نے کووڈ سے بچاؤ کا دیسی ٹیکہ تیار کرلیا تھا اور دنیا کی تاریخ میں ٹیکہ کاری کی اب تک کی سب سے بڑی مہم کا آغاز کیا تھا۔ ہمارے ملک میں کووڈ سے بچاؤ کی ٹیکہ کاری کی مہم تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ وبا کے دوران ہم نے ویکسن اور دیگر طبی امداد کے ساتھ دوسرے ملکوں تک رسائی بھی کی ہے۔ ہندوستان کے اس تعاون کو بین الاقوامی تنظیموں نے سراہا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ ناکامیوں کا سامنا بھی ہوا ہے کیونکہ یہ وائرس نئے تغیرات کےساتھ واپسی کرتا ہے۔ بے شمارخاندان ایک مشکل وقت سے دوچار ہوچکے ہیں۔

ہمارے اجتماعی صدمے کو بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں ۔ سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ بہت سے جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ چونکہ یہ وبائی بیماری ابھی بھی پھیلی ہوئی اس لئے ہمیں چوکنا رہنا چاہئے اور اپنی حفاظت میں کوئی کمی ہونے نہیں دینی چاہئے۔ جو احتیاطی تدابیر ہم نے اب تک اختیار کی ہیں انہیں جاری رکھنا ہوگا۔ ماسک پہننا اور سماجی دوری کو برقرار رکھنا ، کووڈ سے متعلق ضابطوں کے لازمی جزو رہے ہیں۔ کووڈ وبا کے خلاف جنگ میں اب یہ ہر شہری کا قومی فریضہ بن گیا ہے کہ وہ ہمارے سائنس دانوں اور تمام ماہرین کی تجویز کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوں۔ یہ فرض ہمیں اس وقت تک نبھانا ہے جب تک اس بحران پر ہم قابو نہ پالیں۔

ہم جدوجہد جاری رکھیں گے اوراسی لگن کا مظاہرہ کریں گے۔ بحران کے اس دور نے ہمیں اس اعزاز سے بھی نواز ہے کہ کس طرح ہم تمام ہندوستانی ایک خاندان کے طور پر ایک دوسرے سےوابستہ ہیں۔ سماجی دوری کے اس دور نے ہمیں ایک دوسرے کے بہت قریب کردیا ہے۔

ہمیں یہ احساس ہوا ہے کہ ہم ایک دوسرے پر کس قدر انحصار کرتےہیں۔ ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے میں اس چیلنج کا سامنا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر بھی مشکل حالات میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے طویل گھنٹوں تک کام کر رہے ہیں۔ دیگر لوگوں نے قوم کو متحرک رکھا ہے، فراہمی کے سلسلہ اور ضروریات و خدمات کا انتظام کیا ہے۔ قیادت، پالیسی سازوں، منتظمین اور دیگر متعلقہ لوگوں نے ، مرکزی اور ریاستی سطح پر بروقت مداخلت کی ہے۔

اس طرح کی مداخلتوں کے باعث ہماری معیشت دوبارہ آگے بڑھ رہی ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ہندوستان کے جذبے کا یہ جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ گزشتہ برس سخت دور سے گذرنے کے بعد اس مالی برس میں ہماری معیشت متاثر کن شرح سے ترقی پذیر ہوگی۔ یہ گزشتہ برس شروع کئے گئے آتم نربھر بھارت ابھیان کی کامیابی کو نمایاں کرتا ہے۔ حکومت نے معیشت کے ہر شعبے میں اصلاحات پر وسیع تر توجہ کا مظاہرہ کیا ہے اور جہاں بھی ضرورت پڑی مدد فراہم کی ہے۔

زراعت اور مال کی تیاری کے شعبوں میں بہتری کی وجہ سے متاثر کن معاشی کارکردگی ممکن ہوئی ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہورہی ہے کہ ہمارے کسان ، خاص طور پر نوجوان کاشتکار جن کے پاس چھوٹے چھوٹے قطع اراضی ہیں، وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ قدرتی کاشت کاری کو اپنا رہے ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں نےعوام کو روزگار فراہم کرنے اور معیشت کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے اختراعی نوجوان کاروباریوں نے اسٹارٹ اپ حیاتیاتی نظام کا موثر استعمال کرکے ، کامیابی کے نئےمعیارات قائم کئے ہیں۔

ہمارےملک کےوسیع اور مستحکم ڈیجیٹل ادائیگی کے پلیٹ فارم کیکامیابی کا یہ جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ ہرمہینے لاکھوں ڈیجیٹل لین دین ہورہے ہیں۔ آبادیاتی فائدہ حاصل کرنےکے لئے، حکومت نے قومی تعلیمی پالیسی کے ساتھ درست ماحول وضع کیا ہے جو روایتی اقدار اور جدید مہارتوں کابہترین امتزاج بناتا ہے۔ یہ ذکر کرناانتہائی خوش آئند ہے کہ ہندوستان نے سرفہرست 50 اختراعی معیشتوں میں اپنا مقام بنایا ہے۔ یہ بات سب سے زیادہ اطمینان بخش ہے کہ ہم میرٹ کو فروغ دینے میں کامیاب رہے ہیں اورہمہ جہت شمولیت پر بھی زور دیتےہیں۔ خواتین و حضرات، پچھلے سال ہمارے کھلاڑیوں نے بھی ملک کو خوشیاں دی ہیں، جب انہوں نےاولمپکس میں اپنی شناخت بنائی۔ ان نوجوان چیمپئنوں کی خود اعتمادی آج لاکھوں لوگوں کوترغیب دےدہی ہے۔

حالیہ مہینوں میں, میں نے اپنے عوام کو مختلف شعبوں میں اپنے عزم اور عمل کے ذریعہ ، ملک اور معاشرے کو مضبوط کرنے کی قابل ذکرمثالیں دیکھی ہیں۔ البتہ میں ایسی صرف دو ہی مثالوں کا ذکر کروں گا۔ ہندستانی بحریہ اور کوچن شپ یارڈ لمیٹیڈ کی باعزم ٹیموں نے ایک جدید ترین طیارہ بردار بحری جہاز آئی اے سی وکرانت مکمل طور پر ملک میں تیار کیا ہے جسے ہماری بحریہ میں شامل کیا جائے گا۔

اس طرح کی جدید فوجی مہارتوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے ، ہندوستان کا شمار اب دنیا کی صف اول کی بحری طاقتوں میں ہوتا ہے۔ دفاع کے شعبے میں خود انحصاری حاصل کرنے کے تئیں یہ ایک شاندار مثال ہے۔ اس کے علاوہ ایک خاص تجربہ میرے دل کو بہت زیادہ متاثر کرنے والا لگا۔ ہریانہ کے بھیوانی ضلع میں سوئی نام کے گاؤں میں، اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے کچھ روشن خیال باشندوں نے حساسیت اور تندہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’سوا پریت آدرش گرام یوجنا‘، کے تحت گاؤں کو تبدیل کردیا ہے۔ اپنے گاؤں یا آبائی سرزمین سے محبت اور اظہار تشکر کی بے مثال یہ قابل تقلید ہے۔ شکر گذار لوگوں کے دلوں میں اپنی آبائی سرزمین کے لئے ، زندگی بھر محبت اور عقیدت باقی رہتی ہے۔

یہ مثال میرے اس یقین کو مضبوط کرتی ہےکہ ایک نیا ہندوستان ابھر کر سامنے آرہا ہے- ایک مستحکم ہندوستان اور ا یک حساس ہندستان ؛ سکشت بھارت ،سمویدن شیل بھارت ۔ مجھے یقین ہے کہ اس مثال سے تحریک حاصل کرکے وسائل والے دوسرےلوگ بھی اپنے گاوؤں اور شہروں کی ترقیات میں اپنی حصہ رسدی کریں گے۔ اسی تناظر میں، میں آپ سب کے ساتھ اپنا ایک ذاتی تجربہ ساجھا کرنا چاہوں گا۔ یہ گزشتہ سال جون کے مہینے میں ، اپنی جائے پیدائش یعنی کانپور دیہات ضلع میں واقع اپنے گاؤں پارونکھ جانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔

وہاں پہنچ کر مجھے قدرتی طو ر پر اپنے گاؤں کی مقدس مٹی کے لئے احترام کا اظہار کرنے کی خواہش ظاہر ہوئی اور میں نے اسے اپنے ماتھے پر لگایا کیونکہ میرا اعتقاد ہےکہ میں اپنےگاؤں کے آشیرواد کی وجہ سے ہی راشٹرپتی بھون تک پہنچ سکا ہوں۔ میں دنیا میں کہیں بھی ہوں، میرا گاؤں اور میرا ملک میرے دل میں بستے ہیں۔ میں ہندوستان کے ان لوگوں سے درخواست کرتا ہوں جو اپنی محنت اور قابلیت کی وجہ سے زندگی میں کامیابی حاصل کرتےہیں کہ وہ اپنی اصل جڑوں ، اپنے گاؤں ، قصبہ یا شہر کو ہمیشہ یاد رکھیں۔

علاوہ ازیں آپ سب کو اپنی جائےپیدائش اور اپنےملک کی ہر طرح سے خدمات کرنی چاہئے۔ اگر ہندوستان کے تمام کامیاب لوگ اپنی جائے پیدائش کی ترقی کے لئے خلوص نیت سے کام کریں گے تو اس طرح کی مقامی ترقی کے نتائج سے یقیناً پورا ملک مستفید ہوگا۔ پیارے ہم وطنو! آج یہ ہمارے فوج اور سیکورٹی اہلکار ہی ہیں جو قومی فخر کی میراث کوآگے لےجارہے ہیں۔ ناقابل برداشت ٹھنڈ اور صحرا کی شدید ترین گرمی میں بھی، اپنے اہل و اعیال سے کوسوں دور، مادر وطن کی حفاظت کرتےہیں۔

یہ ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنے والی مسلح افواج کی مسلسل چابک دستی او ر چوکسی ہی ملک کے اندر داخلی سلامتی کو برقرار رکھنے والے پولیس کے اہلکاروں کی بدولت ہے کہ ان کے ساتھی شہری پرامن زندگی سے پوری طرح سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جب کوئی بہادر سپاہی فرائض کی ادائیگی کے دوان جاں بحق ہوتا ہے تو پورا ملک غم زدہ ہوجاتا ہے۔ پچھلے مہینے ہی ، ایک اندونہاک حادثہ میں، ہم نے ملک کے بہادر کمانڈروں میں سے ایک -جنرل بپن راوت- انکی اہلیہ اور بہت سے بہادر سپاہیوں کو کھودیا۔اس المناک اور اندوہناک نقصان پر پورا ملک غمزدہ ہے۔ خواتین و حضرات! حب الوطنی شہریوں میں فرض کے احساس کو مستحکم کرتی ہے۔

چاہے آپ ڈاکٹر ہوں یا وکیل ،دکاندار ہو ں یا دفتری ملازم ،صفائی ستھرائی کے ملازم ہوں یا مزدور، اپنی ڈیوٹی کو بخوبی اور احسن طریقے سے انجام دینا ہی آپ کا قوم کے لئے سب سے اول اور اہم ترین حصہ رسدی ہے۔ مسلح افواج کے اعلی ترین کمانڈر کے طور پر، مجھ یہ کہتے ہوئے مسرت ہورہی ہے کہ یہ سال مسلح افواج میں خواتین کو بااختیار بنانے کا سال رہا ہے۔ ہماری بیٹیوں نے کانچ کی اس حد کو توڑ دیا ہے اب نئے شعبوں میں خواتین افسران کو ، مستقل کمیشن حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ سینک اسکولوں او ر باوقار قومی اکیڈمی کے ذریعہ آنے والی خواتین کے ساتھ ہی افواج کی ٹیلنٹ کی پائپ لائن کو تقویت حاصل ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ہماری مسلح افواج بہترین صنفی توازن سے مستفید ہوں گی۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے، آج ہندوستان بہتر مقام پر ہے۔ 21ویں صدی آب و ہوا کی تبدیلی کا دور بن رہی ہے اور ہندوستان نے راہ دکھانے میں عالمی سطح پر قاعدانہ مقام حاصل کیا ہے؛ خاص طور پر قابل تجدید توانائی کے لئے اپنی جرت مندانہ اور پرجوش کوشش کے ساتھ، انفرادی سطح پر ہم میں سے ہرایک گاندھی جی کے مشورے کو یاد کرسکتا ہے اور اپنی ارد گرد کی دنیا کو اور بہتر بنانے میں مدد کرسکتا ہے۔

ہندوستان نے ہمیشہ پوری دنیا کو ایک خاندان سمجھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس عالمی بھائی چارہ کے جذبے سے متاثر ہوکر، ہمارا ملک اور پوری عالمی برادری، مزید مساوی اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن ہوگی۔ عزیز ہم وطنو! اس سال جب ملک کی آزادی کے 75 سال مکمل ہوں گے تو ہندوستان ایک سنگ میل عبور کرے گا ۔ ہم اس موقع کو ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کے طور پر منارہے ہیں۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ ہمارے لوگ، خاص طور پر نوجوان، اس تاریخی سال کی یاد میں منعقد کی جانے والی تقریبات اور پروگراموں میں انتہائی جوش و خروش کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ یہ نہ صرف آنے والی نسلوں بلکہ ہم سب کے لئے اپنے ماضی کے ساتھ دوبارہ جوڑنے کا بہترین موقع ہے۔

ہماری جدوجہد آزادی، ہماری شاندار داستان کا ایک متاثر کن باب تھی۔آزادی کے اس 75ویں سال میں ، آیئے ہم ان اقدار کو دوبارہ دریافت کریں جنہوں نے ہماری اس شاندار قومی تحریک کو متحرک کیا تھا۔ ہماری آزادی کے لئے بہت سے مردوں اور خواتین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ ہمارے آزادی پسندوں نے ناقابل تصور اذیتیں جھیلیں اور ہمارے لئے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کی تقریبات سے لطف اندوز ہونے کے لئے بے شمار قربانیاں دیں۔ آیئے یوم جمہوریہ کے اس موقع پر ان بیش قیمت گرانقدر لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کریں۔ خواتین و حضرات، ہندوستان ایک قدیم تہذیب ہے ، البتہ ایک نوجوان جمہوریہ ہے۔

قومی تعمیر ہمارے لئے ایک مستقل کوشش ہے۔ جیسا کہ ایک خاندان میں ، اسی طرح ایک قوم میں؛ ایک نسل ، اگلی نسل کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کے لئے سخت محنت کرتی ہے۔ جب ہم نے آزادی حاصل کی تھی تو نوآبادیاتی نظام کے استحصال نے ہمیں قطعی غربت سے دوچار کیا تھا، لیکن ہم نے ان 75 سالوں میں متاثر کن ترقی کی ہے۔ نئے نئے مواقع آنے والی نسل کے منتظر ہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے ان مواقعوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور کامیابی کے نئےمعیار قائم کئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس توانائی ، اعتماد اورکارورباری صلاحیت کے ساتھ ، ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن رہے گا اور یقینی طور پر عالمی برادری میں، اپنی صلاحیت کے مطابق ، اپنا صحیح مقام حاصل کرلے گا۔

میں ایک بار پھرآپ سب کو یوم جمہوریہ کی مبارکباد یتا ہوں! شکریہ جے ہند!