سیاسی پارٹیا ں مسلمانوں کو مہرے کی طرح استعمال کررہی ہیں: قاضی معصوم اختر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-02-2021
پدم شری ایواراڈ یافتہ ماہر تعلیم قاضی معصوم اختر
پدم شری ایواراڈ یافتہ ماہر تعلیم قاضی معصوم اختر

 

 سینتنی چودھری/ کولکاتا 

پدم شری ایوارڈ یافتہ ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے،جس نے اس طویل سفر میں آنے والے نتائج اور پریشانیوں سے بے خبر ہونے کے اپنے نظریہ و خیالات کی تقلید کی ہو۔ 15سال تک مسلم سماج کو ضعیف الاعتقادی اور قدامت پرستی سے نکالنے کے لئے ماہر تعلیم قاضی معصوم اخترکو اس تبدیلی کے لئے ایک جانباز کی طرح یاد کیا جائے گا۔ یہ شاندار کام کرنے کے بعد معصوم اختر کو حال ہی میں ادب اور تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات اور تعاون کے لئے ’پدم شری‘ ایوارڈ سے نوازا گیاتھا۔

قاضی معصوم اختر ریاست مغربی بنگال کے ہوڑہ کے بسنت پور نامی گاؤں میں ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔انہوں نے اسکولی تعلیم کے دورمیں ہی فیصلہ کیا کہ وہ آنے والے دنوں میں روایتی قوانین و ضوابط سے بندھے نہیں رہیں گے اور جلد ہی انہوں نے روایات و اعتقادات کو چیلنج کرنا شروع کردیا،جس کے بارے میں انہیں معلوم تھا کہ اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے اسلام کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ کیا۔انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ مذہب عام لوگوں کے لئے ایک پناہ گاہ ہے،تو مذہب سبھی کے لئے صحیح اور یکساں ہونا چاہئے، سبھی لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کو صحیح طریقے سے جاننے کا اختیار و حق ہونا چاہئے“۔ اسکول ہیڈ ماسٹر کے طور پر کام کرنے والے قاضی معصوم اخترخواتین کے حقوق کو فروغ دینے اور اسٹوڈنٹس میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں۔

ان کا یہ مشن آسان اور سہل نہیں ہے۔اختر نے ’آواز دی وووائس‘ کو بتایا ”میں گزشتہ کچھ برسوں سے متعدد مذہبی گروہوں کے رڈار پررہا ہوں جنہوں نے میرے خلاف فتوے جاری کئے ہیں،حالانکہ میں ان سے نہیں ڈرتا،خطرات اب مجھے نہیں ڈراتے“لوگوں کو اصل اسلام کو جاننے اور مذہبی پیشوا اورپیروں پر اعتماد و یقین نہ کرنے کی آزادی ہونی چاہئے“۔ پانچ سال قبل،جنوبی کلکتہ مدرسہ میں اسٹوڈنٹس کو یوم جمہوریہ کے موقع پر قومی ترانہ گانے کے لئے کہنے پرایک مشتعل بھیڑ نے معصوم اختر پر حملہ کردیا۔

اس بارے میں اختر کا کہنا تھا ”حملہ کی اصل وجہ قومی ترانہ نہیں تھی، میں نے اسکول کے ماحول کو سختی سے کنٹرول کیا،میرے وہاں آنے سے قبل مقامی مالدار جرائم پیشہ کیمپس میں کھلے عام گھومتے تھے اور لڑکیوں کو پریشان کرتے تھے۔میں نے اپنی کم عمر طالبات کی شادی کئے جانے کے خلاف کچھ طالبات کے والدین کو سمجھانے کی کوشش کی،جس میں میں کامیاب رہا۔ان سبھی واقعات نے حملہ کرنے والوں کو مزید مشتعل کردیا“۔ اسلامی شدت پسندوں نے مسلمانوں کے ذریعہ قومی ترانہ گانے پر احتجاج کیا تھا،اور اسے ’ہندوگیت‘ قراردیا تھا۔ اختر کا خیال ہے کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر شخص اپنے مذہب کے باوجود ایک ہندوستانی ہے۔سبھی کو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو سمجھنا اور اس کا احترام کرنا چاہئے۔ یہ سیکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں کسی دوسرے ملک کی بے عزتی کرنا ہوگی۔

معصوم اختر نے اپنے اسکول میں وویکانند جینتی اور روندر جینتی منانا شروع کردیا اور صبح میں اسٹوڈنٹس کی اسمبلی کے دوران قومی ترانہ گانے کی مشق کرائی۔انہوں نے کہا ”ایک بنگالی مسلمان ہونے کے ناطے مجھے لگتا ہے کہ مدارس کے اسٹوڈنٹس کو بنگالی کلچر کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئے اور انہیں وطن کے تئیں عزت و احترام کا مظاہرہ کرنا چاہئے،اور ایک ٹیچر کے طور پر میرا یہ فرض ہے کہ میں انہیں سیدھے راستے پر چلاؤں “۔ تاریخ کے طالب علم رہے اختر ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے بخوبی واقف ہیں۔

انہوں نے گاؤں میں بڑے ہونے کے دوران غریبوں کو خود ساختہ پیشواؤں اور پیروں کی تقلید کرتے ہوئے دیکھا۔ ”میں نے اپنے خلاف ہونے والے عدم تعاون اور احتجاج کے بارے میں لکھنا شروع کیا۔جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ تحریر ہی کافی نہیں ہے۔مجھے پیر باباؤں اور مذہبی خود ساختہ پیشواؤں کے تئیں لوگوں کی ضعیف الاعتقادی کو ختم کرنے کے لئے سخت محنت کرنے کی ضرروت ہے“۔ یہ 21سال پہلے کی بات ہے جب معصوم اختر جنوبی 24پرگنہ کے دوردراز گاؤں لکشمی کانت پور میں واقع اسکول میں ایک ٹیچر کے طور پر پہنچے تھے۔گاؤں کی خواتین کی مدد سے انہوں نے شراب بند کرنے کے لئے ایک خاموش مہم چلائی جو کہ انتہائی کامیاب رہی۔

وہ اس مشن کو اپنی ذمہ داری کے طور پر دیکھتے ہیں۔”ٹیچربرادری کو سماج میں انتہائی محترم نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ہمارے پاس بولنے اور رہنمائی کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم ہے،اسی لئے ہمیں معاشرہ میں کم از کم ایک اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے“۔ حملہ میں ان کے سر پر آنے والی گہری چوٹ کی وجہ سے طویل عرصہ تک اسپتال میں رہنا پڑا، مسجد میں ان کے داخلہ پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس دن کو یاد کرتے ہوئے اخترفلیش بیک میں چلے جاتے ہیں ”وہ لوگ لاٹھی،ڈنڈے لے کر آئے تھے،آس پاس لوگ موجود تھے،لیکن کسی نے بھی انہیں نہیں روکا“ حالانکہ ان کی اہلیہ ان کے ساتھ ہیں لیکن کبھی کبھی ان کی صبر و استقامت بھی ڈولنے لگتی ہے۔”اب عمر کے ساتھ اور سماج سے عدم تعاون کو دیکھتے ہوئے اس نے سختی سے مجھے اپنی سرگرمیوں میں کمی لانے کو کہا،لیکن میں ایسا نہیں کرسکتا۔میں جہاں کہیں بھی ضعیف الاعتقادی اور غلط روایتی رسم و رواج کو دیکھتا،بولتا ہوں“۔

”میں ایک خوشحال مسلم خاندان سے تعلق رکھتا ہوں،لیکن میں جانتا ہوں کہ سچا اور اصل اسلام اللہ کے علاوہ کسی بھی فرد کی پرستش کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ہمیں درگاہوں پر چادر چڑھانے سے منع کیا گیا ہے پھر بھی ہم ایسا کرتے ہیں،کئی لوگ پیروں کی درگاہوں پر نذرانے دیتے ہیں،حالانکہ ایسا کرنا انتہائی سختی سے منع ہے۔لیکن زمین پر بھولے بھالے لوگوں کا برین واش کرکے مردوں کی پرستش کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے،اور ایسے لوگ ضعیف الاعتقادی میں جیتے ہیں“۔ اختر نے کہا ”سیاسی پارٹیاں ہمارے فرقہ کو پیچھے دھکیل رہی ہیں اور انہیں محض مہرے کے طور پر استعمال کررہی ہیں،مسلمانوں کا برین واش کیا گیا، سرکاری املاک کو آگ لگانے کے لئے انہیں اکسایا گیا اور پھر قومی ترانہ گانے اور قومی پرچم لہرانے کو کہا گیا تاکہ ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کو چھپایا جاسکے۔

میرا کسی بھی وقت قتل کیا جاسکتا ہے،لیکن میں سچ بولنا جاری رکھوں گا“۔ مولویوں کو ان کے ’کلین شیو‘ سے نفرت تھی،اور انہیں اس کے بدلہ میں داڑھی بڑھانے کے لئے کہا گیا۔ انہیں داڑھی بڑھانے کے ثبوت کی شکل میں وقتا فوقتا ان کے چہرے کی تصویر یں بھیجنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ اختر کو طلاق ثلاثہ کی روایات کے خلاف اور ووٹ بینک کی سیاست کے حوالہ سے مسلمانوں نے نشانہ پر لیا۔انہوں نے طلاق ثلاثہ پر فوری پابندی کے لئے ایک لاکھ دستخط لئے اور اسے صدر جمہوریہ کے نام ایک میمورنڈم کے طور پر بھیجا۔ اختر نے دھمکی دینے والے ایسے متعدد شدت پسند مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے، تب بھی وہ کھلے عام گھومتے رہتے ہیں۔پولیس ان لوگوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کر کے عدالتی احکامات کے عملدرآمد میں ناکام رہی ہے۔

اختر نے کہا ”مجھے معلوم ہے سرکار انہیں نہیں چھوئے گی۔یہ برسراقتدار پارٹی کی منہ بھرائی کی پالیسی کے خلاف جائے گا۔ اختر نے شہریت(ترمیمی)قانون کی حمایت کی اور کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اس کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ معصوم اختر نے مزید کہا ”قانون کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس کیا گیاتھا،ایوان بالا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس اکثریت نہیں تھی لیکں غیر بی جے پی پارٹیوں نے اس کی حمایت کی وہی پارٹیاں اب اپنے مفادات کے لئے احتجاج اور مذہب کو ہوا دے رہی ہیں“۔

ہندوستانی مسلمانوں کو فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔حقیقت میں کئی ترقی یافتہ ممالک کے پاس شہریت کے کارڈ ہیں،اور میں اس کی ستائش کرتا ہوں۔قانون میں ایک تفریق آمیز شق ہے جس کے تحت ہم سبھی کو عدلیہ سے رجوع کرنا چاہئے، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے احتجاج نہیں کرنا چاہئے“۔ مجھے بڑا عجیب لگتا ہے جب میں ان ہی لوگوں کو دیکھتا ہوں جنہوں نے میرے اسٹوڈنٹس کو قومی ترانہ کی موزونیت سکھانے کے لئے روز روشن میں لاٹھی ڈنڈوں سے زدوکوب کیا،وہی لوگ قومی پرچم تھامے اسے گا بھی رہے تھے۔ یہ ایک بڑا چیلنج تھا۔

فی الحال،قاضی معصوم اختر کاٹجو نگر سورن موئی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ممتا بنرجی حکومت نے انہیں 2017میں ’بہترین ٹیچرزایوارڈ‘ سے نوازا۔انہوں نے کہا ”ایوارڈ حاصل کرنا میری منزل نہیں ہے میرا مقصد مسلسل اصلاح اور میرے اسٹوڈنٹس کی بہتری کا عمل ہے۔میں یہیں نہیں رکوں گا میں سبھی رکاوٹوں اور حملوں کے باوجود اپنی کوششیں جاری رکھوں گا“۔