شاعری انسان پر جلد اثر انداز ہوتی ہے:پروفیسر طارق منصور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-02-2023
شاعری انسان پر جلد اثر انداز ہوتی ہے:پروفیسر طارق منصور
شاعری انسان پر جلد اثر انداز ہوتی ہے:پروفیسر طارق منصور

 

 

علی گڑھ۔اردو شاعری اپنے جذبات کے اظہار کا بہترین وسیلہ ہے ،جسے زمانہ قدیم سے استعمال کیا جاتا رہا ہے،شاعری صرف ایک فن نہیں بلکہ زندگی کا برتاؤہے اور یہ فن ایک دن میں نہیں آجاتا بلکہ اس کے لئے محنت و ریاضت درکار ہوتی ہے تب کہیں جا کر وہ نکھر کر آسامنے آتی ہے۔

یہ خوشی کی بات ہے کہ ڈاکٹر سرور ساجد نے شاعری کی ،زندگی میں اسے برتا اور اب ان کے کلام کا پہلا مجموعہ شائع ہو کر ہمارے ہاتھوں میں آگیا ہے۔

یہ باتیں وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے ڈاکٹر سرور ساجد کے پہلے مجموعہ کلام ’’دو کنارے‘‘ کی رسم اجرا ادا کرتے ہوئے ویمنس کالج میں کہیں۔

انہوں نے کہا کہ شاعری کے توسط سے جو باتیں دو مصرعوں میں ایک شاعرکہہ جاتا ہے اس کے لئے ہمیں کئی کئی جملے استعمال کرنے پڑتے ہیں ،اس کے علاوہ شاعری میں اور بھی کئی باتیں ہوتی ہیں جن کو وہ روئے کار لاکر اپنی بات میں خوبصورتی پیدا کردیتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ جلدی ہم پر اثر انداز ہوتی ہے۔

ڈاکٹر سرور ساجد مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنا خوبصورت مجموعہ شائع کیا اور امید ہے کہ وہ ایسی ہی شاعری کرتے رہیں گے۔ پرنسپل پروفیسر نعیمہ خاتون نے کہا کہ شاعری انسان کی پہلی زبان ہوتی ہے کیونکہ مائیںتھپک کراور لوریاں سنا کر بچوں کو سلاتی ہیں اور ان کو پیارکرتی ہیں۔

بس فرق یہ ہوتا ہے کہ اس میں فنکاری نہیں ہوتی بلکہ اس میں جذبات کا اظہار ہوتا ہے جبکہ شاعری میں فنکاری کے ساتھ جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر سرورساجد ایک نمائندہ شاعر ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایک شاندار روایت رہی ہے۔

جذبی صاحب اور شہریار صاحب نے شاعری کی تو خدمت کی ہی انہوں نے اس کے ذریعہ ہمارے اس ادارے کا بھی نام روشن کیا۔ہمیں خوشی ہے کہ ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہو کر منظر عام پر آگیا ہے ،اس سے ان کو مزید حوصلہ ملے گا۔

نائب شیخ الجامعہ (پی وی سی)محمد گلریز نے کہا کہ اردو بڑی میٹھی زبان ہے اور شاعری اس کے مٹھاس کی نمائندگی کرتی ہے اگر نہ یقین ہو تو ڈاکٹر سرور ساجد کی غزلیں آپ پڑھ لیجیے یقین آجائے گا۔انہوں نے کہا اردو صرف ایک زبان نہیں ہے بلکہ ایک کلچر ہے اور کلچر کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔

جب اردو زبان و ادب کی حفاظت ہوگی تو کلچر خود بخود محفوظ رہے گا۔آج جب اردو کا استعمال عام زندگی یعنی کاروباری اور دفتری زندگی میں نہیں ہو رہا ہے ایسے میں اس زبان کا پس پشت چلی جانا معمول کی بات ہے لیکن ہمیں اسے آگے لانا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اردو پڑھنے والی نئی پود تیار کریں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنی اس ذمہ داری کو ادا کر رہی ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ یونیورسٹی کے ایک لائق و فائق استاد جو خود یہ زبان پڑھاتے ہیں شاعر بھی ہیں اور ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’دوکنارے‘‘ منظر عام پر بھی آگیا ہے۔اس سے ان کے ساتھ ہی ان کے طلبا و طالبات کو بھی حوصلہ ملے گا اور نئی راہیں کھلیں گی،جس سے زبان و ادب کو ترقی ملے گی۔

ڈاکٹر سرور ساجد نے مہمانوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ یہ پذیرائی صرف میری نہیں ہے بلکہ اردو زبان و ادب کی ہے ۔ہم اساتذہ کے لئے خوشی کی بات ہے کہ اس ادارے کے ذمہ داران ہمیشہ حوصلہ افزائی سے کام لیتے ہیں۔ہمیں قوی امید ہے کہ آپ سب کی توجہ ہمیشہ ملتی رہے گی اس سے ہم اساتذہ اور طلبا و طالبات کو حوصلہ ملتا رہے گا۔پروگرام میں پروفیسر ذکیہ ، پروفیسر آمنہ کشور ،پروفیسر حمیدہ طارق،پروفیسر نازیہ حسن، پروفیسر منیرہ ٹی، ڈاکٹر نگار عالم صدیقی، ڈاکٹر سرور ساجد، ڈاکٹر سیدہ خاتون، ڈاکٹر شگفتہ نیاز، ڈاکٹر زرینہ خان، ڈاکٹر صدف فرید، ڈاکٹر رضوانہ شفیع، ڈاکٹر محمد سہیل، ڈاکٹر حنا اسحاق، ڈاکٹر محمد فیروز احمد، ڈاکٹر لبنی ناز، اورڈاکٹر افسانہ پروین سمیت طلبا و طالبات بھی موجود رہیں۔