بھاگوت کا بیان: کسی کو بھایا کسی کو نہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-07-2021
بھاگوت  کے بیان پربڑی بحث
بھاگوت کے بیان پربڑی بحث

 

 

 منصورالدین فریدی / آواز دی وائس 

موہن بھاگوت نے جو کچھ کہا ہے وہ ایک اچھی بات ہے۔ اچھی پہل ہے اور ایک مثبت قدم ہے۔مسلمانوں کو اسے مثبت طور پر قبول کرناچاہیے۔ہندو مسلم اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور مذاکرات ہی اس کا راستہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی حکومت کو اس سلسلے میں ایسے قدم اٹھانے ہونگے جن سے مسلمانوں میں یقین اور اعتماد پیدا ہو سکے ۔ ان خیالات کا اظہار ملک کےممتاز دانشوروں اور اسلامی ۔اسکالرز نے کیا ہے  

در اصل راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کے لنچنگ کی مخالفت اور ہندو۔ مسلمان اتحاد کے تعلق سے کل ایک بیان نے ملک میں ہلچل نہیں بلکہ بھونچال پیدا کردیا ہے۔جس میں انہوں نے بہت کچھ کہا اور دل کھول کر کہا تھا۔ جس میں ان کے یہ خیالات سامنے آئے تھے کہ ہندو مسلم تنازعہ کا واحد حل بات چیت ہے، اختلاف نہیں۔’ اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ یہاں کوئی مسلمان نہیں رہنا چاہئے تو وہ شخص ہندو نہیں ہے۔۔اس کے بعد سے ملک بھر میں اس پر ردعمل سامنے آئے ہیں۔ سیاسی لیڈران اسے سیاست مان رہے ہیں حالانکہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ نہ تو ان کی تنظیم سیاست کا حصہ ہے اور نہ ہی انہیں سیاست میں دلچسپی ہے۔بہرحال ملک کے مسلم دانشور اور اسلامی اسکالر اس کو ایک مثبت پہل مان رہے ہیں لیکن اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ مسلمانوں میں جو بے چینی اور بے اعتمادی ہے اسے دور کرنے کےلئے عملی اور ٹھوس قدماٹھانے کی بھی سخت ضرورت ہے۔

آئیے جانتے ہیں کیا کہتے ہیں دانشور حضرات موہن بھاگوت کے ایک بڑے اوراہم بیان کے بارے میں ۔

سید ظفر محمود ،ریٹائرڈ آئی اے ایس اور ذکاۃ فاونڈیشن آف انڈیا کے روح رواں نے موہن بھاگوت کے اس بیان پر کہا کہ اگر ایک اچھی بات کہی ہے تو اسے مسلمانوں کو جھٹلانا نہیں چاہیے،ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔دین بھی یہ نہیں سکھاتا ہے۔ہوسکتا ہے اللہ نے ہی کوئی راستہ پیدا کیا ہو۔

 سید ظفر محمود نے مزید کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ کو ذہین میں رکھنا چاہیے ساتھ ہی موجودہ حالات کو بھی۔ میرے خیال میں اگر موہن بھاگوت نے ایسی بات کہی ہے تو انہیں ایک موقع ملنا چاہیے۔کسی فوری ردعمل کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ 

ممتاز اسلامی اسکالر اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ موہن بھاگوت نے جو کہا ہے اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔اچھی بات کہی ہے۔ مگر اس کے ساتھ موہن بھاگوت کو کچھ عملی طور پر بھی کرنا ہوگا،خالی بیان مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا ہے۔ آر ایس ایس اور حکومت کو چاہیے کہ ماب لنچنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ایحک کے ساتھ نرم اور ایک ساتھ گرم کا رویہ درست نہیں ہے۔بہرحال انہوں نے ایک اچھی بات کہی ہے ۔اس کا خیرمقدم ہے لیکن بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ لیڈرشپ کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ کام کررہی ہے۔

مولانا مفتی محمد مکرم احمد ،امام فتحپوری مسجد نے آر ایس ایس کے سربراہ بھاگوت کے اس بیان پر کہا کہ میرے خیال میں بھاگوت صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے ،اس سے قبل بھی وہ اس قسم کے بیانات دے چکے ہیں۔ بیان اچھا ہے لیکن انہیں ایسے واقعات کی مذمت کرنی چاہیے۔خواہ مرنے والا کوئی بھی ہو۔ایسے واقعات میں کون ملوث ہے اور کون نہیں وہ بہتر جانتے ہیں۔ضروری یہ ہے کہ ایسے واقعات کو روکنا ضروری ہے۔ مفتی مکرم نے مزید کہا کہ مسلمان کتنا ہندوستانی ہے اس کا ثبوت سرحد سے شہری زندگی تک مل رہا ہے۔ کسی بھی قربانی سے مسلمان پیچھے نہیں ہے۔ملک کے لئے جان دینے کی بات ہو یا پھراقتصادیات میں حصہ داری ۔ مسلمان ہر میدان میں ساتھ ساتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ سب کو اپنا اپنا مذہب پیارا ہےمگر سماجی طور پرہم سب کو ملک کی ترقی کے لئے متحد ہوکر کام کرنا چاہیے۔

انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدرسراج الدین قریشی نے آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کے تازہ بیان کا پر زورخیر مقدم کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے جائز مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ پہل کریں۔ سراج الدین قریشی نے کہا کہ موہن بھاگوت یوں تو ہمیشہ سے ہی ہندو مسلم مذاکرات کے زبردست حامی رہے ہیں لیکن ان کا تازہ بیان اب تک کا سب سے منفرد‘جامع اور مبنی بر حقائق بیان ہے۔

 سراج الدین قریشی نے‘ جو آل انڈیا جمعیت القریش کے بھی صدر ہیں، اس کوایک تاریخی بیان قرار دیا۔ ہندوستانی مسلمان بہت سے مسائل کا شکار ہیں اور میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ ان کے بہت سے مسائل جائز ہیں،ان کا حل بہت ضروری ہے۔ میں ہمیشہ اس بات کا قائل رہا ہوں کہ اقتدار میں جو بھی ہو مسلمانوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے ان سے رابطہ کرنا چاہئے اور یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اقلیتوں کے شکوک وشبہات کا بھی ازالہ کرے اور ان کے مسائل کاحل بھی پیش کرے۔

موہن بھاگوت کے اتنے واضح بیان کے بعد ان پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے اس بیان پر اعتماد کرکے آر ایس ایس سے نہ صرف مذاکرات کے عمل کا آغاز کرنا چاہئے بلکہ ان سے اپنے مسائل کے حل کیلئے بھی تعاون مانگنا چاہئے۔