عمر خالد کیس:اقلیتی طبقے کے لیے آواز اٹھانا فرقہ پرستی نہیں :وکیل دفاع

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-03-2022
عمر خالد کیس:اقلیتی طبقے کے لیے آواز اٹھانا فرقہ پرستی نہیں :وکیل دفاع
عمر خالد کیس:اقلیتی طبقے کے لیے آواز اٹھانا فرقہ پرستی نہیں :وکیل دفاع

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی

اگر اقلیتی طبقے کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے تو اس کو جرم نہیں کہا جاسکتا ہے،اس بنیاد پر عمر خالد کو فرقہ پرست ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ دلائل بدھ کو وکیل دفاع نے پیش کئے۔اس کے ساتھ  دہلی فسادات سے منسلک غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کیس میں ضمانت کی درخواست پر بحث کی۔ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کے سامنے بحث کرتے ہوئے، سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے یہ بھی کہا کہ جہاں استغاثہ نے بعض واٹس ایپ گروپس پر ان کے مؤکل کی خاموشی کو جرم قرار دیا تھا، اس نے فرق کو ظاہر کرنے کے لیے دوسرے گروپس پر ان کی "فعال" حیثیت نہیں دکھائی تھی۔

 انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا کیس ہے جہاں کسی کی خاموشی اس خلاف مانی جاتی ہے۔ 2016 کے جے این یو سے غداری کیس کا حوالہ دیتے ہوئے سینئر وکیل نے عرض کیاکہ۔’’ اگر میں 2016 سے مجرم ہوں اور میں نے خاموشی کا یہ نیا طریقہ تیار کیا ہے، تو میں ایک خاموش مجرم ہوں.. پھر کیا آپ نے دوسرے واٹس ایپ گروپس سے موازنہ کیا ہے؟ یہ ایسا ہی ہے کہ اگر میں خاموش ہوں، میں ایک مجرم ہوں... دوسرے گروہوں میں، میں سرگرم ہوں‘‘۔

پیس نے یہ بھی نشاندہی کی کہ 2016 میں کیچ فریز "ٹکڑے ٹکڑے گینگ" خالد سے منسوب نہیں کیا گیا تھا۔ یہ دلائل اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امیت پرساد کی جانب سے خالد کی درخواست ضمانت کے خلاف جمع کرائے گئی دلائل کے جواب میں تھے۔وکیل نے مزید کہا کہ سی اے اے اور این آر سی کو امتیازی قرار دینا کسی کو فرقہ پرست نہیں بناتا۔

 انہوں نے خالد کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا حوالہ دیا جو جھارکھنڈ کے آدیواسیوں پر تھا۔وکیل دفاع نے مزید کہا کہ ایک شخص ایک مسئلہ اٹھاتا ہے… اسے فرقہ وارانہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ لوگوں کے ایک طبقہ کے بارے میں لکھتا ہے۔ کسی اقلیت ساتھ بدسلوکی ہوتی ہے تو اس پر آواز اٹھانے کو فرقہ واریت نہیں کہتے۔

عدالت کو سینئر وکیل کے ذریعہ مزید بتایا گیا کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) نے ایک ایسی صورتحال پیش کی جہاں بہت سے لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ 

اس کے خلاف رامچندر گوہا، ٹی ایم کرشنا اور بہت سے لوگوں نے اس قانون کے خلاف بات کی ہے۔ میرا مؤکل امتیازی قانون کی مخالفت کرتا ہے اور اس کا تعلق اس کمیونٹی سے ہے۔ ہر کوئی اپنی لڑائیاں لڑسکتا ہے اور اس بات کا انتخاب کرتا ہے کہ کس چیز کے بارے میں احتجاج کرنا ہے۔

اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امیت پرساد نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تفتیش جاری ہے۔ ملزم کا انتخاب تفتیشی ادارے کا اختیار ہے۔ یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ ہم جن لوگوں کو ملزم بنائیں گے یا گواہ۔