ہندوستان کو عالمی گرو بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا: ڈاکٹر امام احمد عمیر الیاسی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-03-2021
ڈاکٹر امام احمد عمیر الیاسی
ڈاکٹر امام احمد عمیر الیاسی

 

 

ڈاکٹر امام احمد عمیر الیاسی آل انڈیا امام آ رگنائزیشن کے چیف امام ہیں۔ مزاج کافی حد تک سلجھا ہوا ہے۔ باتیں بالکل نپی تلی کرتے ہیں ۔ گفتگو کے دوران وہ بہت احتیاط کرتے ہیں کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے یا کسی بھی طرح کا تنازعہ پیدا نہ ہو ۔ لیکن اپنا نقطہ نظر کھل کر اور پوری سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ احمد آباد میں عائشہ کی جہیز کی وجہ سے وہ خود کشی اور ملک کے اماموں کی تنخواہ جیسے سنگین معاملات پر بیباک طریقے سے اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ آواز دی آواز (ہندی) کے ایڈیٹر ملک اصغر ہاشمی نے امام صاحب سے طویل گفتگو کی۔ پیش ہے گفتگو کے اہم نکات۔

سوال: مسلمانوں کے لئے جہیز کتنی بڑی لعنت ہے؟

ڈاکٹر امام احمد عمیر الیاسی: ہم نے دیکھا کہ اس لڑکی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل رہی ہے۔ لوگ اسے مستقل طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے ، لیکن مجھے یہ بھی خوف ہے کہ جس طرح سے ویڈیو وائرل ہورہی ہے کہ مبادا دوسری عائشہ نہ ہو ۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی اور اس سے اثر لے رہا ہے۔ اگر کوئی اچھی چیز ہے تو اسے وائرل کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ لیکن یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے وائرل کیا جائے ۔ تاہم ، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام کے اندر خودکشی حرام ہے۔ اسے کسی بھی حالت میں یہ کام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اسے گھریلو پریشانی تھی اور اسے سسرال والوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کی وجہ سے اس پر قدر دباؤ تھا کہ وہ اس انتہا تک چلی گئی لیکن پھر بھی اسے خودکشی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اگر اسے مناسب مشورہ دیا جاتا تو اس کی زندگی بچ سکتی تھی۔

جہیز کے حوالے سے یہ مسئلہ سامنے آیا ہے۔ جہیز لینا اور دینا اسلام میں حرام ہے ۔ ہندوستان کے قانون کے مطابق جہیز لینا اور دینا جرم ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سارے گھر ٹوٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے قوم کا بہت نقصان ہو رہا ہے ، لہذا اب وقت آگیا ہے کہ ہم لوگوں کواس حوالے سے سمجھائیں ۔ جہیزکی لعنت صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ جہیز کا چلن پورے ہندوستان سے ختم ہونا چاہئے۔ میں سب سے گزارش کروں گا کہ لڑکیاں اپنے والدین کے دل کا ٹکڑا ہوتی ہیں ۔ آپ اس سے زیادہ جہیز اور کیا لیں گے کہ وہ لڑکی شادی ہو تے ہی آپ کی ہو جاتی ہے اور اپنے والدین کے گھر کو چھوڑ کر آپ کے گھر کو آباد کرتی ہے ۔ وہ اپنے دوستوں اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر وہ صرف نکاح پڑھ کر یا پھیرے لے کر آپ کی بن جاتی ہے۔ وہ آپ کے تمام دکھوں اور خوشیوں میں آپ کی شریک ہوتی ہے ۔ اس سے بڑی رحمت اور کیا ہوسکتی ہے۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی سے کس طرح پیار کیا اور آپ نے انہیں کیسے رکھا ، ان کی تربیت کیسے کی۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میرے بھائیوں اللہ کی خاطر جہیز کے اس نظام کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیں۔ ہماری بہنوں اور بیٹیو ں کی شادیا ں نہیں ہو پاتیں کیونکہ وہ پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے رشتوں سے محروم رہ جاتی ہیں ۔ غریب جہیز نہیں دے سکتا۔ غریبوں کی بچیوں کی شادی نہیں ہوتی ۔ ایک اچھی تعلیم یافتہ لڑکی ہے جس کی عمر بڑھ رہی ہے ، وہ صرف جہیز کا بندوبست نہ ہو پانے کے باعث شادی نہیں کر پا رہی ہے۔ ہمارے ہندوستان میں بہت ساری لڑکیاں ہیں جو جہیز نہ دینے کی وجہ سے شادی نہیں کررہی ہیں۔

ہندوستانی معاشرے سے جہیز کے رواج کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے ، مجھے یقین ہے کہ اس میں ہمارے مذہبی پیشواؤں کا ایک اہم رول ہے۔ جب عبادت گاہ سےیہ آواز بلند ہوگی تو میرے خیال میں اس کا زیادہ اثر ہوگا۔ لوگ یقینی طور پر اس پر عمل کریں گے۔ عام طور پر بڑی شادیوں پر لوگ بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں ، ر کروڑوں روپے لگا دیتے ہیں ۔ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ، آپ اس کروڑوں روپے سے ایک ہزار یا دو ہزار شادیاں حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ ایک مختصر سی زندگی ہے ، اس زندگی میں سب کی خوشی کی فکر کریں ۔ میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ کسی بھی حالت میں خود کشی نہ کریں۔ اگر آپ ذہنی طور پر دباو میں ہیں تو کونسلنگ لیں ۔

سوال: سنہ 2016 میں لوک سبھا میں ، مانیکا گاندھی نے اعداد و شمار پیش کیا تھا کہ جہیز کے قتل کی وجہ سے ملک میں روزانہ تقریبا 39 لڑکیاں مر رہی ہیں۔ کیا امام تنظیم کی جانب سے ایسا کوئی اقدام اٹھایا جا رہا ہے کہ معاشرے سے اس برائی کا مکمل خاتمہ ہو؟

ڈاکٹر امام احمد عمیر الیاسی: آج کے دور میں مذہبی قائدین کا بہت اہم کردار ہے ، لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں ، اگر وہ اس کام کے لئے آگے آئیں گے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ تبدیلی ضرور آئے گی۔ حکومت اپنا کام کرتی ہے ، قانون اپنا کام کرتا ہے اور اپنا کام کرتا رہے گا لیکن ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرنے کے لئے آگے آنا ہوگا۔ جہاں تک امام آرگینایزیشن کا تعلق ہے تو ہندوستان کے اندر 5.50 لاکھ مساجد موجود ہیں۔ ہم نے ہندوستان کے تمام مرکزی دارالعلوموں، تمام اماموں ، ہندوستان کے تمام قاضیوں اور تمام مفتیوں کو سختی کے ساتھ کہ دیا کہ اگر جہیز کا کوئی معاملہ سامنے آئے تو نکاح نہ پڑھائیں ۔ یہ خاص طور پر مسلمانوں کے لئے بہت ہی اہم فیصلہ ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کا کوئی اعلان نہیں ہوا تھا ۔

سوال: دو دن پہلے دہلی میں ایک بڑی میٹنگ ہوئی تھی جس میں عالم بھی اکٹھا ہوئے تھے اور دانشور بھی جمع ہو ئے تھے ۔ ہمیں بتائیں کہ اسے اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور ہم ایسی ملاقاتوں سے کیا حاصل کر رہے ہیں؟

ڈاکٹر امام احمد عمیر الیاسی: دو روز قبل ہونے والی گول میز بحث میں ملک کے تمام ذمہ دار لوگوں نے حصہ لیا- اس بحث میں یہ بات سامنے آئی کہ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے۔ ہمارے معاشرے کی سب سے قابل تشویش مسلہ تعلیم ہے۔ اگر ہم لوگ مل کرتعلیم پر زور دیں گے تو مجھے لگتا ہے کہ ہم بہتری کی طرف گامزن ہوں گے۔ آج ہمارے معاشرے میں تعلیم کے حوالے سے رجحان تو بڑھا ہے لیکن میرے خیال میں ضرورت ہے مزید بہتر طریقے سے کام کرنے کی ۔ میرے خیال میں تعلیم کے لئے کالج کی کوئی کمی نہیں ہے۔ میں تعلیم پر کام کرنے والوں اور ریٹائرڈ اساتذہ کو ایک پرائمری اسکول کھولنے کا مشورے دینا چاہتا ہوں اور اس کے لئے زیادہ جگہ کی بھی ضرورت نہیں ہے نہ ہی اس میں زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔

سوال: آپ 5.50 لاکھ ائمہ کی نمائندگی کرتے ہیں؟ 5.50 لاکھ ائمہ آپ کی تنظیم سے وابستہ ہیں۔ ایک بڑی تنظیم بہت کچھ بدل سکتی ہے۔ اتنی بڑی تنظیم کے باوجود ، آپ ملک کی ترقی کے لئے کیا کر رہے ہیں؟

ڈاکٹر امام احمد عمیر الیاسی: ہماری ذاتیں مختلف ہوسکتی ہیں ، ہماری عبادت کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں۔ ہمارے مسالک مختلف ہو سکتے ہیں۔ ہمارے مذاہب مختلف ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہمارا سب سے بڑا مذہب انسانیت کا ہے ، اور اگر ہم ہندوستان میں رہتے ہیں تو یہ ہندوستانیوں کا ہے ۔ ہمیں ہندوستانی اور انسانیت کے مذہب کو ملحوظ رکھنا چاہئے کیونکہ ہم سب ایک دوسرے کے بھائی اور بہن ہیں ، اگر ہم ان سے محبت کرتے ہیں تو ، ملک خود بخود ترقی کرے گا اور اگر ہم ہندوستان میں رہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر ہندوستانیت کے جذبے کو فروغ دینا چاہئے۔

میں امام ہوں ، میں مسلمان ہوں ، اسی طرح میں عبادت کرتا ہوں۔ میں عبادت کے لئے اپنا طریقہ اپناتا ہوں اور آپ اپنے طریقے سے عبادت کرتے ہیں ۔ کوئی کیا کھاتا ہے ، کوئی کیا پہنتا ہے ، کوئی کس کی پوجا کرتا ہے یہ سب ایک ذاتی معاملہ ہے۔ ہمیں گھر سے نکلنے کے بعد انسانیت کے مذہب کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور اگر ہم ہندوستان میں رہتے ہیں تو ہندوستانی ہونے کے ناطے ہم سب مل کر ہندوستان کو مضبوط بنانے ، ہندوستانیت کو مستحکم کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کی جانب توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔ ایسی سوچ کے ساتھ ، ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی نے آتم نربھر ہندوستان کے جس ویژن کو شروع کیا اس سے ہمارا ملک بطور عالمی گرو کے دنیا میں آگے بڑھا ہے۔

کوویڈ ۔19 کی وبا میں ہندوستان پہلا ملک ہے جہاں پانچ کمپنیوں نے مشترکہ طور پر یہ ویکسین تیار کی اور پوری دنیا کی نگاہ بھارت پر ہے کیوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کی ویکسین مل جائے ۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہمارے ملک کی ترقی کے لئے اس سے بڑا اور کیا ہوسکتا ہے ، جہاں تک ہندوستان خود انحصار ہے ، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہندوستان اس سے پہلے ہمیشہ ورلڈ ماسٹر رہا ہے۔ آج کے آئی ٹی سیکٹر میں پوری دنیا کے ہندوستان کی خدمات کا لوہا مانتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کو مضبوط بنانے کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہم اس کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی جی کی حمایت کریں - ہر ہندوستانی ان کے ساتھ چلنا چاہئے - میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے وقت میں ، ہندوستان کو عالمی گرو بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔      (جاری ..............)