مسلمانوں کو ہر حالت میں صبر سے کام لینا چاہیے: ائمہ مساجد

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 17-06-2022
 مسلمانوں کو ہر حالت میں صبر سے کام لینا چاہیے: ائمہ مساجد
مسلمانوں کو ہر حالت میں صبر سے کام لینا چاہیے: ائمہ مساجد

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

نماز جمعہ سے قبل ملک کی متعدد مساجد کے ائمہ نےاپنے خطاب کے دوران مسلمانوں صبر سے کام لینےکی تلقین کی۔ ان کا کہنا تھا کہ صبر ایسی چیز ہے جس سے کامیابی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے، جو صبر سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے ساتھ آتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ  مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں بھی صبر کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔ معاشرے پر جب کوئی مصیبت یا برا وقت آتا ہے تو اس کا مقابلہ ہمت اور صبر سے ہی  کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بالفرض کبھی کوئی نازک صورت حال پیش آجائے تو اس وقت  اگر انتشار، بدنظمی، مایوسی اور نافرمانی کی بات کی جائے معاشرہ تباہی کی طرف پہنچ جاتا ہے۔  ہمیں چاہیے کہ کوئی بھی مصیبت  آئے تو اللہ کے لیے صبر کریں۔

ائمہ کرام نے فرمایا کہ صابر کا شمار انبیاء کی صفات میں ہوتا ہے۔ اہل مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بہت سی رکاوٹیں کھڑی کیں لیکن وہ ہر مشکل اور تکلیف کو صبر سے برداشت کرتے رہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ تصادم سے گریز کیا۔

 انہوں نے ہمیشہ مکہ کے مخالف ماحول میں اہل مکہ کے سامنے اخلاقیات کی مثال قائم کی۔ اگر کسی نے ان کے ساتھ بدکلامی بھی کی تو انہوں نے اس کے جواب میں دعا دی۔  جب کوئی ان پر پتھر مارتا تھا تو آپ اس سے نرمی سے بات کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کی دل آزاری کرے تو آپ اس کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے تھے۔ انہوں نے  کبھی کسی سے لڑائی نہیں کی بلکہ صبر کے ساتھ ہمت سے کام لیا۔

وہ لوگوں کو دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابی کی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ لوگوں کو اللہ کے پسندیدہ دین پر بلاتے رہے۔   یہ آپ کے صبر کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کی دعوت نے لوگوں کے دل جیت لیے۔ چند سال پہلے جو  لوگ آپ کے دشمن تھے وہ  بھی آپ کے دوست بن گئے،ہم نوا بن گئے۔

ائمہ کرام نے فرمایا کہ صابر کا معاشرے پر بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں اگر کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے صابر انسان ہی اس صورت حال سے نمٹتے ہیں۔ اگر اگر ایسی صورت حال میں صبر کا دامن چھوڑ کر تصادم کی روش اختیار کیا جائے تو معاشرے میں انارکی پھیل جائے گی اور  معاشرے کا امن درہم برہم ہو جائے گا۔

کوئی بھی معاشرہ جب ترقی کرتا ہے تو اس کے راستے میں ہزاروں مشکلات پیش آتی ہیں۔ دین کی راہ میں کوئی نکلتا ہے تو اس کے ساتھ بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ ایسےمیں اگر ان مشکلات پر صبر نہ کیا جائے تو انسان ترقی کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ اگر انسان مشکل وقت میں صبر کی روش اختیار نہ کرے تو اس کی ترااقی رک جائے گی۔

ائمہ کرام نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے قول پر ثابت قدم رہتے ہوئے لوگوں کو تحمل کے ساتھ دین کے بارے میں بتانا چاہیے۔  اگر کوئی دین کے خلاف بات کرے تو اس کا مقابلہ نہ کریں بلکہ عقل کے ساتھ  اس کا جواب دیں۔ اہل ایمان کو اہل وطن اور پڑوسیوں کے ساتھ ہمیشہ احترام ، محبت اور حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے، خواہ وہ کسی بھی نظریے اور مذہب کے ماننے والے ہوں۔

مفتی اشفاق حسین قادری(قادری مسجد شاستری پارک دہلی  )،مفتی بلال نظامی(سنی جامع مسجد رتلام )، مولانا شاہد مصباحی(سنی جامع مسجد رتلام )، مولانا بدرالدین مصباحی (خطیب و امام مسجد اعلیٰ حضرت نظامیہ لکھنؤ) مولانا سید محمد قادری( جے پور)،مولانا سید محمد قادری فیضی( اجمیر  )، قاری حنیف (مرادآباد)، مولانا سخی (جموں)، مولانا مظہر امام (شمالی دیناج پر بنگال)، مولانا عبدالجلیل نظامی (پلی بھیت)، مولانا سمیر احمد (رام پور)، مولانا قاری جمال، مولانا ابرار( بھاگلپور)، مولانا مصطفیٰ رضا( ناگپور)،مولانا تنویر احمد( امان شہید جامع مسجد) اور مولانا مشرف (مصطفی آباد) وغیرہ اسی موضوع پر مصلیان سے جمعہ سے قبل خطاب کیا۔