محمد علی: ایک کوہ پیما جس کے عزم وحوصلے پہاڑوں سے بھی بلند ہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-10-2021
'کوہ پیما''محمد علی احمد کا عزم وحوصلہ پہاڑوں سے بھی مضبوط
'کوہ پیما''محمد علی احمد کا عزم وحوصلہ پہاڑوں سے بھی مضبوط

 


شیخ محمد یونس، حیدرآباد

بلند وبالا پہاڑوں کی خطرناک چوٹیاں محمد علی احمد کے عزم و حوصلہ کے سامنے چھوٹی ہی نظر آتی ہیں۔ وہ لداخ میں بلند و بالا چوٹی کو سر کرنے کے علاوہ آسٹریلیا کے پہاڑوں پر چڑھائی کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا ساری دنیا کے سامنے منواچکے ہیں۔

اب ان کی نظریں مائونٹ ایورسٹ کی چوٹی پر ہے ضلع نظام آباد کے بودھن منڈل کے ایک چھوٹے سے موضع عمدہ پور کے نوجوان محمد علی احمد بلند عزم و حوصلہ کے پیکر ہیں۔وہ بچپن ہی سے جہد مسلسل کی علامت رہے ہیں۔معاشی مسائل اور محدود وسائل کے باوجود محمد علی احمد نے نہ صرف نمایاں کارنامے انجام دیئے ہیں بلکہ اپنا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔

خاندانی پس منظر

محمد علی احمد ' جب صرف چار برس کے تھے جب ان کے والد محمد ابرار احمد کا انتقال ہوگیا۔ابرار احمد ایک چھوٹی سی کرانہ کی دکان چلاتے تھے ۔والد کے انتقال کے بعد ماں نے محنت و مشقت کے ذریعہ تین لڑکوں بشمول محمد علی احمد اور دولڑکیوں کی پرورش کی۔

محمد علی احمد کے بڑے بھائی نے سینٹرنگ کے کام کے ذریعہ گھریلو اخراجات کی تکمیل میں نہ صرف ماں کی مدد کی بلکہ علی احمد کی تعلیم کے حصول میں رہنمائی کی۔

محمد علی احمد کے ایک اور بھائی حافظ قرآن ہیں ۔محمد علی احمد نے بچپن ہی سے غریبی اور مشکلات کو قریب سے دیکھا ہے۔وہ اپنے اہل خانہ کے مسائل کی یکسوئی کے خواہاں ہیں۔علاوہ ازیں ایک بیوہ بہن اور ان کے تین معصوم بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی اب اسی خاندان کو نبھانا ہے۔

awaz

ہر فن مولا

محمد علی احمد اسٹک مارشل آرٹ میں بلیک بیلٹ ہیں اور مختلف مقابلوں میں میڈلس حاصل کرچکے ہیں۔علاوہ ازیں وہ اتھیلیٹ بھی ہیں ۔علی احمد نے لانگ جمپ اور دوڑ کے مقابلوں میں ریاستی سطح پر منعقدہ مختلف مقابلوں میں نمایاں مظاہرہ کیا ہے۔انہیں بچپن ہی سے درختوں اور پہاڑوں پر چڑھنے کا شوق تھا۔

وہ اپنے قریبی گائوں میں درختوں اور پہاڑوں پر آسانی کے ساتھ چڑھ جاتے۔ان کی دلچسپی کو دیکھ کر ان کے اساتذہ نے ان کا نام نہرو یووا کیندرا نظام آباد میں درج کروایا۔اس کے بعد علی احمد نے کبھی بھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔وہ حیدرآباد کے علاوہ دہلی میں مختلف مقامات پر تربیت حاصل کی۔

ہمالیہ کی چوٹی اسٹاک کانگری پیک(Stock Kangri Peak) کو سرکرنے کا اعزاز

محمد علی احمد نے کوہ پیمائی کے شوق میں کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اور ملک ' ریاست تلنگانہ کا نام ساری دنیا میں روشن کیا ہے۔علی احمد نے سال 2015 میں اسٹاک کانگری کو سر کرنے کا مثالی اور منفرد کارنامہ انجام دیا۔یہ چوٹی زمین سے 21ہزار150 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

ہمالیہ کی بلند ترین چوٹیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔خطرات اور جوکھم سے پر اس مہم کو علی احمد نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پندرہ یوم میں مکمل کیا۔علی احمد نے 2جون یوم تاسیس تلنگانہ کے موقع پر اس بلند ترین چوٹی پر قومی ترنگا اور تلنگانہ کا پرچم لہرایا اور ایک ریکارڈ قائم کیا۔

awaz

آسٹریلیا میں پر خطر پہاڑوں پر چڑھائی

محمد علی احمد نے سال 2018 میں عالمی سطح پر منعقدہ کوہ پیمائی کے مقابلوں میں حصہ لیا اور آسٹریلیا کا دورہ کیا۔انہوں نے آسٹریلیاء میں Mount Kosciuszko اور Ten Highest Peaks کو سر کیا۔علی احمد نے 222میٹربلند خطرناک پہاڑی کو بغیر کسی سہارے کے سر کیا۔

اس پہاڑی پر جنگلی جانوروں ' سانپوں کی کثرت ہوتی ہے۔علی احمد نے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا اور اس پر خطر مہم کو بھی کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔ انہیں گولڈ میڈل بھی حاصل ہوا۔

آبشار Rappelling میں تاریخ ساز کارنامہ

علی احمد نے کوہ پیمائی کے علاوہ آبشار Rappellingمیں بھی اپنے فن کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے۔وہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر بھی کئی آبشار Rappellingمقابلوں میں سحر انگیز مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ رقم کی ہے۔علی احمد نے ویزاگ ' وشاکھا پٹنم' کمرم بھیم آصف آباد کے علاوہ دیگر مقامات پر آبشار Rappellingمقابلوں میں حصہ لیتے ہوئے میڈل حاصل کئے ہیں۔انہوں نے کٹیلا آبشار آندھراپردیش میں 2019 میں منعقدہ پہلے واٹر فال Rappellingورلڈ کپ میں حصہ لیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔

علاوہ ازیں علی احمد' انڈین مائونٹینیرنگ فائونڈیشن دہلی Indian Mountaineering Foundation Delhi میں ہیلی کاپٹر سے پیراشوٹ کے ذریعہ 12ہزار میٹر کی بلندی سے چھلانگ بھی لگاچکے ہیں۔ علی احمد نے آواز دی وائس کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمالیہ کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ کو سر کرنے کے خواہاں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ رقم اور اسپانسر نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے مشن کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔

علی احمد نے بتایا کہ ایورسٹ کی چوٹی سرکرنے کیلئے ہیلی کاپٹر ' آکسیجن سلنڈرس و دیگر اشیاء کیلئے تقریباً 40 لاکھ روپے درکار ہیں ۔علی احمد نے بتایا کہ وہ بچپن ہی سے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کوہ پیمائی کے علاوہ مختلف مقابلوں میں حصہ لیتے ہوئے وہ اندرون وبیرون ملک ہندوستان کا نام روشن کئے ہیں۔علی احمد نے بتایا کہ وہ دفتر وقف بورڈ حیدرآباد میں یومیہ اجرت پر جونیر اسسٹنٹ کے طورپر خدمات انجام دے رہے ہیں اور بودھن میں واقع ڈگری کالج میں سال آخر کے طالب علم ہیں۔

awaz

علی احمد نے بتایا کہ ان کے معاشی حالات بہتر نہیں ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ وہ ملک کیلئے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔تاہم رقم اور اسپانسر نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔علی احمد نے بتایا کہ بحیثیت اسپورٹس مین تاحال انہیں کوئی فوائد حاصل نہیں ہوئے ہیں۔

انہیں اسپورٹس کوٹہ کے تحت سرکاری ملازمت بھی حاصل نہیں ہوئی ہے۔علی احمد نے ایورسٹ کی چوٹی کو سرکرنے کے ان کے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ارباب مجاز و صاحب ثروت افراد سے مدد کی درخواست کی ہے۔