جدید ڈئیزائن کی مساجد اب دنیا بھرمیں توجہ کا مرکز ہیں۔ پروفیسر ایس ایم اختر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-02-2021
معمار ماضی نہیں مستقبل کو دیکھتا ہے۔
معمار ماضی نہیں مستقبل کو دیکھتا ہے۔

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی

ایودھیا مسجد کا ماڈل جب پہلی بار منظر عام پر آیا توسرخیوں میں چھا گیا۔مسجد کے ڈیزائن میں گنبد اور مینار نہیں تھے۔بلکہ ’فن تعمیر‘کو ایک جدید رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ جو اب ایک موضوع بحث بھی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ذمہ داری کو نبھانے والے ہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی آرکی ٹیکچر ڈیپارٹمنٹ کے ڈین پروفیسرایس ایم اختر۔جن کیلئے ان کی پروفیشنل زندگی کا سب سے اہم پروجیکٹ ہے کیونکہ اس میں بہت نازک پہلوشامل تھے۔

پروفیسر اخترمانتے ہیں کہ ”۔ یقینا میرے لئے یہ پروجیکٹ ایک چیلنج تھا۔اس کا ڈئیزائن بہت نازک معاملہ تھا۔ ہمیں بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑا۔اہم بات یہ تھی کہ نظر مستقبل پر تھی، اسلامی فلسفہ حیات کے تحت ہمیں وقت کے ساتھ چلنا بھی ضروری تھا،ر مذہب کے ساتھ دنیا کے توازن کو بھی نظر میں رکھنا تھا۔“پروفیسر اختر نے ”آواز دی وائس“کے 'مدیر' منصور الدین فریدی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”۔ کیمپس کا فن تعمیر اسلامی ہے۔ اس میں اسلامی فن تعمیر کو دکھایا گیا ہے۔ یہ کیمپس اسلامی فلسفہ کی نمائش کرتا ہے، جو انسانیت کو فوقیت دیتا ہے۔ہم نے اس میں خدمت خلق کا پہلو اجاگر کیا ہے جو دین کا حصہ ہے۔

سوال:اس پروجیکٹ کیلئے کن باتوں کا خیال رکھا گیا ہے؟

جواب:اس پروجیکٹ میں بہت کچھ سامنے رکھنا پڑا ہے۔کیونکہ اس سے کئی پیغام دینے کا مشن ہے لیکن بنیادی مقصد کے بارے میں میرا نظریہ بالکل واضح ہے۔ تصور یہ ہے کہ ایک ایسا مرکز قائم کیا جاسکے جو انسانی اقدار، ہندوستانی اخلاق اور اسلامی روح کے ساتھ معاشرے کی خدمت کر سکے۔اسی کو نظر میں رکھتے ہوئے کام کیا ہے۔باقی کسی بحث سے میرا کوئی سروکار نہیں۔میں ایک آرکی ٹیکٹ ہوں اور میرا کردار ماضی کا نہیں، مستقبل کے لئے ہے۔ جو بھی ماضی ہے۔مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں صرف مستقبل سے ہی فکر مند ہوں، اور یہ انسانیت کی خدمت کیسے کرے گا۔

سوال:اس ڈئیزائن نے ایک تنازعہ بھی پیدا کیا کہ مجوزہ مسجد کو روایتی مسجد کی شکل کیوں نہیں دی گئی؟

جواب: اسلام میں گنبد اور مینار کی کوئی شرط نہیں رہی ہے۔اس کے ثبوت تاریخ میں موجود ہیں۔ہمیں ماضی سے باہر آنا ہوگا۔آپ کو حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔اسلام ہر دور کا مذہب ہے۔ اسلام کا پیغام ہی وقت کے ساتھ چلنے کا ہے۔ہمیں نئے دور کے فن تعمیر کو تسلیم کرنا ہوگا۔ماضی میں بھی بغیر گنبد اور مینارکی مساجد تھیں اور اب بھی ہیں۔ہندوستان کی پہلی مسجد پیغمبر اسلام کی زندگی کے دوران ہی کیرالہ کے کوڈنگلور علاقے میں قائم کی گئی تھی اس میں بھی گنبد اور مینار نہیں ہے۔

اگر کوئی نئی مسجد کی ماضی سے مشابہت کی توقع رکھتا ہے تو اس کی وجہ جذباتی لگاؤ نہیں بلکہ اسلامی فن تعمیر کے بارے میں ’غلط فہمی‘ ہے۔بات مخالفت اور ناراضگی کی ہے تو جب بھی کوئی کام ہوتا ہے تو اس کی حمایت اور مخالفت ہوتی ہے،اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔مسجد کا کیمپس عصری فن تعمیر پر مبنی ہے، کیونکہ معاشرہ نئے چیلنج مثلا توانائی، آلودگی، پارکنگ کا سامنا کر رہا ہے۔ اس لئے اس طرح کا فن تعمیر، ایسے چیلنج سے نمٹ میں مدد دیتا ہے۔

سوال:جدید ڈئیزائن ہی کیوں پہلی پسند بنا؟

جواب: ’ہر دور کا اپنا مختلف فن تعمیر رہا ہے،ایسا نہیں کہ ہم نے جو ڈئیزائن بنایا ہے وہ انوکھا ہے اور دنیا میں اس سے قبل کہیں ایسی مسجد نہیں بنی۔یورپ سے مشرق وسطی تک ایسی مساجد بن رہی ہیں جن میں مینار یا گنبد نہیں ہیں۔فرانس،جرمنی،ڈنمارک اور متعدد ممالک میں نئے طرز کی مسجد بن رہی ہیں۔بات واضح ہے کہ جس طرح آپ ماضی کو کبھی اپنا حال نہیں بنا سکتے ہیں، اسی طرح فن تعمیرات میں پرانی چیزوں کو دہرایا نہیں جاتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فن تعمیر کا استعمال آج کے معاشرے اور مستقبل کیلئے ہونا چاہیے۔ ایک ماہر کا کام موجودہ دور کی سہولیات کو بہترین انداز سے استعمال کرنا اور موجودہ دور کے چیلینجیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمارت کی تعمیر کرنا ہوتا ہے جو میں نے انجام دیا ہے۔آپ سوچئے کہ ایک دور میں مسجد کے ساتھ گھوڑے باندھنے کی جگہ رکھی جاتی تھی لیکن اب کار پارکنگ کا انتظام اہم ہوتا ہے۔وقت کے ساتھ سب کو چلنا ہوتا ہے۔ہم کچھ نیا نہیں کر رہے ہیں۔ایسی خوبصورت مساجد اب یورپ اور یہاں تک کے عالم عرب میں بھی عام ہورہی ہیں۔

سوال: کیا جدید فن تعمیر کو اسلامی نہیں مانا جاسکتا؟

جواب: آرکی ٹکچر کسی ایک دور سے بندھنے کا نام نہیں ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جو طرز تعمیر قرون وسطیٰ میں تھا وہی اسلامک آر کی ٹیکچر ہے تو یہ غلط فہمی ہے۔ وہ ایک دور تھا جو گزر گیا ہے لیکن اسلام تھوڑی گزرا ہے، وہ تو آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ آپ یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بھی نئی مساجد دیکھیں، ان میں نئے دور کے آرکی ٹیکچر کا استعمال ہوا ہے۔میں نے اسلامک آرٹ اینڈ آر کی ٹیکچر پر بین الاقوامی سطح پر ہونے والے چھ اجلاسوں میں حصہ لے لیا،ان میں سے تین کا انعقاد خود کیا تھا۔اجلاس میں متعدد بار اس موضوع پر تبادلہ خیال ہوا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ اسلام میں مسجد کیلئے گنبد یا مینار کی کوئی شرط نہیں ہے۔ہمیں ماضی سے باہر آنا ہوگا اور نئے ماحول اور تبدیلیوں کو تسلیم کرنا ہوگایہی اسلام کا فلسفہ حیات بھی ہے۔