بابری مسجد کے بعد دیگر مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کا معاملہ : حکومت کو نوٹس

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-03-2021
سپریم کورٹ
سپریم کورٹ

 

 

نئی دہلی

سپریم کورٹ نے آج حکومت سے استفسار کیا ہے کہ کیا پلیسز آف ورشِپ ایکٹ کی موجودگی میں کسی شہری کو عدالت آنے سے روکا جا سکتا ہے؟ ’پلیسز آف ورشِپ ایکٹ‘ کی روح سے ملک میں 15 اگست 1947 کے بعد کے تمام مذہبی مقامات کو اس کی موجودہ حالت میں ہی رکھا جائے گا ۔

عرضی گزار اشونی اپادھیائے نے اس قانون کو چیلنج کرتے ہوئے سوال اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ یہ قانون ہندو، سکھ، بودھ اور جین طبقہ کو اپنے ان پاکیزہ مقامات پر دعویٰ کرنے سے روکتا ہے جن کی جگہ جبراً مسجد، درگاہ یا چرچ بنا دیئے گئے تھے۔

اشونی کا موقف ہے کہ یہ قانون نہ صرف انصاف کے اصولوں کے منافی ہے بلکہ مذہبی بنیاد پر بھی تفریق کو ہوا دیتا ہے۔ سپریم کورٹ نے آج حکومت کو نوٹس بھیج کر سوال پوچھا ہے کہ کیا کسی شہری کو عدالت آنے سے روکا جا سکتا ہے؟ 1991 کے ’پلیسز آف ورشِپ ایکٹ‘ کو چیلنج کرنے والی عرضی میں یہ سب سے اہم سوال اٹھایا گیا ہے۔

یہ قانون کہتا ہے کہ ملک میں سبھی مذہبی مقامات کی حالت وہی بنائے رکھی جائے گی جو 15 اگست 1947 کو تھی۔ عرضی دہندہ اشونی اپادھیائے کا کہنا ہے کہ یہ قانون ہندو، سکھ، بودھ اور جین طبقہ کو اپنے ان پاکیزہ مقامات پر دعویٰ کرنے سے روکتا ہے جن کی جگہ جبراً مسجد، درگاہ یا چرچ بنا دیئے گئے تھے۔ یہ نہ صرف انصاف پانے کے حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مذہبی بنیاد پر بھی تفریق ہے۔

واضح رہے کہ 1991 میں جب ’پلیسز آف ورشِپ ایکٹ‘ بنا اس وقت ایودھیا میں بابری مسجد کا مسلہ عدالت میں زیر التوا تھا۔ اس لیے بابری مسجد کو مستثنیٰ رکھا گیا، لیکن کاشی-متھرا سمیت باقی تمام ہندو مذہبی مقامات کے لیے یہ لازم کر دیا گیا تھا کہ ان کی حالت نہیں بدلی جا سکتی۔

عرضی گزار نے دعویٰ کیا کہ پارلیمنٹ نے اس قسم کی قانون سازی کر کے غیر ملکی حملہ آوروں کی طرف سے کی گئی تخریب کاری کو جائز قرار دیا ہے۔