ہندی اخبار کو محمود مدنی کا قانونی نوٹس

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-07-2021
مولانا محمود مدنی
مولانا محمود مدنی

 

 

 نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی کی طرف سے ان کے وکیل ایم آر شمشاد نے ہندی اخبار ’دینک جاگرن‘ کو قانونی نوٹس جاری کیا ہے، اس کی وجہ 7/جولائی 2021ء کو اخبار کے صفحہ نمبر 7 پر مدارس اسلامیہ سے متعلق جھوٹی اور گمراہ کن خبر کی اشاعت ہے۔ اس خبر میں انتہائی غلط اور بے بنیاد باتوں کو مدرسوں سے جوڑا گیا ہے اور آزاد مدرسوں کو غیر قانونی عمل کا گہوارہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ جس سے ملک کے مسلمانوں کی شدید دل آزاری ہوئی ہے اور ملک میں لاکھوں بچوں کو مفت بنیادی ابتدائی تعلیم فراہم کرنے والے دینی اداروں کے سلسلے میں عوام میں غلط تاثر قائم ہوا ہے۔

 حالاںکہ ملک کے آئین کی دفعہ 29-30 میں تمام اقلیتوں کو اپنی پسند کے مطابق تعلیمی ادارہ قائم کرنے اور اسے چلانے، اسی طرح اپنی تہذیب، زبان اور رسم الخط کے تحفظ کا بنیادی حق ہے۔ جہاں تک آرٹی ای ایکٹ 2009 کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ (حکومت بنام پرامتی ایجوکیشنل اینڈ کلچرل ٹرسٹ 2013) موجود ہے، جس میں اقلیتی اداروں بشمول مدارس اسلامیہ کو اس قانون کے دائرے مستثنی رکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں بنیادی دفعہ 30 کا حوالہ دیا گیا ہے۔

 نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ ہندی اخبار کی خبر میں یہ ذیلی سرخی بھی لگائی گئی ہے ”نہیں لینا چاہتا مانیتا“ جس میں کہا گیا ہے کہ ”زیادہ تر غیر مانیتا پراپت مدرسے، مانیتا کے لیے آویدن نہیں کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ مانیتا ملنے پر انھیں ویبھاگ سے نیموں (اصولوں) کا پالن کرنا ہو تا ہے، چندے کا حساب دینا ہوتا ہے“ یہ الزام انتہائی غلط اور منفی تاثر پیدا کرنے والا ہے جو دینک جاگرن اخبار اور اس کے رپورٹر حسین شاہ نے خود سے وضع کیا ہے، جب کہ حقائق کے اس کے خلاف ہیں اور اس کے پس پشت اخبار کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔ نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی خبر کے طویل عنوان کے نیچے دانستہ طور سے ’لو جہاد‘ کے مفروضہ کی خبر بھی شائع کی گئی ہے جس کا مقصد قاری کو کنفیوز کرنا ہے اور یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ مدرسوں میں اس کی طرح غیر قانونی سرگرمی ہوتی ہے۔

 نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ بالا خبر کی اشاعت سے مدرسوں کو ناقابل تلافی نقصان اور اس کی ساکھ کو صدمہ پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ مدرسوں سے عمر گوتم کے قضیہ کو جوڑا گیا ہے اور عمر گوتم کو جرم کا محور مان کر مدرسوں کو اس کا مرکز بتایا جا رہا ہے، جب کہ عمر گوتم کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اس لیے ہم دینک جاگرن سے غیر مشروط معافی مانگنے اور اس گمراہ کن مضمون کی اشاعت بند کرنے اور اپنی ویب سائٹ سے حذف کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، بصورت دیگر جمعیۃ علماء ہند عدالتی چارہ جوئی کے لیے مجبور ہو گی۔

 اس سلسلے میں آج نئی دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے قانونی معاملوں کے نگراں ایڈوکیٹ و مولانا نیاز احمد فاروقی نے بتایا کہ اس خبر سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ملک میں سارے آزاد مدرسے غیر قانونی طور سے چلتے ہیں، اس لیے سرکار ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی، حالاںکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مدارس ملک کے آئین کی بنیادی دفعہ 30 کے مطابق چلتے ہیں اور ان کا وجود عین آئینی اور دستوری حق کا تحفظ ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے مقصد اصلی میں مدارس اسلامیہ کا تحفظ شامل ہے، اس لیے ایسی خبروں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس سبھی مدرسوں کی شاخ متاثر ہوتی ہے۔( پریس ریلیز)