کرشنا ڈھابہ کھل گیا :کوئی المیہ روایتی دوستی کو نہیں توڑ سکتا ۔راکیش کمار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-04-2021
 کشمیر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک اور جیت
کشمیر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک اور جیت

 

 

ساجد رسول: سری نگر

سری نگر "کشمیر ہمارا گھر ہے اور یہاں ہم گزشتہ کئ دہائیوں سے کام کرتے آئے ہیں - میں نے کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ترامی میں ایک ساتھ کھانا کھایا ہے اور میرے یہاں کافی دوست و احباب ہیں جنہوں نے میرے بیٹے کے ساتھ پیش آئے حادثے کے بعد مجھ سے ہمدردی جتائی - ہم ایک ساتھ رہتے اور کام کرتے آئے ہیں اور ایسے حادثے اور المیہ اس روائتی انسان دوستی میں رکاوٹ کا سبب نہیں بننے چاہئیں " ان باتوں کا اظہار کرتے ہوئے سرینگر کے معروف وجیٹیرین ہوٹل کرشنا ڈھابہ کے مالک راکیش کمار کی آنکھیں جس درد اور غم کو بیان کرتی ہیں وہ ایک دردمند اور زندہ دل انسان ہی محسوس کرسکتا ہے ۔

ایک بڑے ذاتی اور جذباتی  نقصان کےبعد دوبارہ کھول دیا ہوٹل راکیش کمار نے

سرینگر کا یہ معروف ڈھابہ آج قریب دو ماہ بعد دوبارہ بحال ہوگیا ہے اور یہاں کافی چہل پہل دیکھنے کو مل رہی ہے - رواں سال فروری کے مہینے میں کچھ جنگجوؤں نے یہاں ڈھابے پر راکیش کمار کے بیٹے آکاش مہرہ پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں ان کی جان چلی گئی تھی - اس حملے کے بعد دو ماہ تک کرشنا ڈھابہ بند رہا- ڈھابا کے دوبارہ کھلنے کے ساتھ ہی یہاں کا لزیز کھانا کھانے والے لوگوں کا رش دیکھا جاسکتا ہے ۔

ڈھابہ کے مالک راکیش کمار کے لئے بیٹے کا کھونا ان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ تھا لیکن زندگی کے اس بڑے حادثے کے باوجود انہوں نے آج کرشنا ڈھابہ کو دوبارہ کھول کر یہ ثابت کیا کہ زندگی کے ایک حادثے کی وجہ سے وہ مسکرانا نہیں چھوڑ دینگے - کشمیر کو اپنا گھر قرار دیتے ہوئے راکیش نے بتایا کہ وہ گزشتہ کئ دہائیوں سے کشمیر میں کام کرتے ہیں ہیں اور اس دوران انہوں نے مختلف نشیب و فراز کا مشاہدہ کیا ہے آج جبکہ وہ اس حادثے میں اپنا بیٹا کھو چکے ہیں اس کے باوجود وہ پر عظم ہے کہ کشمیر میں انہیں جو عزت، پیار و محبت اور بھائی چارہ انہوں نے دیکھا ہے وہ اس حادثے سے بڑھ کر ہے اور وہ اس پر کافی یقین رکھتے ہیں ۔

جموں و کشمیر کے گرمائی دارلحکومت سرینگر کے سونہ وار میں واقع کرشنا ویشنو ڈھابہ ایک قدم اور معروف ہوٹل ہیں جہاں پر ویجٹیرن کھانے کے مختلف اور لزیز اقسام کھانے کو ملتے ہیں- کرشنا ڈھابہ کے بلکل پاس میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کا دفتر ہونے علاوہ کئی اہم دفاتر بھی ہیں - اس کے علاوہ جھیل ڈل کے بلکل متصل ہونے کی وجہ سے بھی یہاں لوگوں کا کافی رش لگا رہتا ہے خواہ وہ مقامی لوگ ہوں یا غیر مقامی سیلانی سب یہاں کا کھانا کافی پسندکرتے ہیں۔

قابل ذکر ہے یہاں ہر ملت و مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ کھانا کھانے کے لئے آتے ہیں ہندو مسلمان سکھ بلا لحاظ مسلک و مذہب یہاں ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں - کرشنا ڈھابا کے مالک راکیش کمار جموں و کشمیر کے ضلع ادھمپو سے تعلق رکھتے ہیں تاہم وہ یہاں دہائیوں سے یہ ڈھابہ چلاتے آئے ہیں۔ 17 فروری کو کرشنا ڈھابہ کے مالک کے فرزند آکاش مہرہ پر جنگجوؤں نے حملہ کردیا اور ان کو قریب سے گولی مار دی گئی جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے ۔

انہیں بعد میں شری مہاراجا ہری سنگھ (ایس ایم ایچ ایس) اسپتال لے جایا گیا تھا تاہم اسپتال میں قریب دس دن بعد آکاش زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے - واقعے کے فورا بعد ہی جموں و کشمیر پولیس نے اس واقعے میں ملوث تین عسکریت پسندوں کو حملے کے 48 گھنٹوں کے اندر اندر گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا-حادثے کے بعد کرشنا ڈھابہ قریب دو ماہ تک بند رہا۔

لوٹ آئے خریدار بھی ۔۔ زندگی  تھمتی نہیں۔

کرشنا ڈھابہ کے مالک رمیش کمار کے مطابق وہ گزشتہ کئ دہائیوں سے سرینگر میں یہ ڈھابہ چلاتے آئے ہیں اور آگے بھی چلانے کے لئے پر عزم ہیں - آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو حادثہ ان کے ساتھ پیش آیا وہ ان کے لئے کافی زیادہ غم ناک ہے اور یہ درد فقط وہی محسوس کرسکتا ہے جس نے اپنا بیٹا کھویا ہو- انہوں نے مزید بتایا " زندگی تو چلانی ہے اور زندگی کے اس سفر میں اس طرح کا حادثہ رکاوٹ نہیں بننا چاہئے - مجھے کسی بھی فرد کا خوف نہیں ہے اور نا ہی اس سے قبل کوئی خوف تھا اللہ تعالیٰ میرا محافظ ہے "۔

رمیش کمار کا مزید کہنا تھا " میرا بیٹا واپس نہیں آسکتا ہے اس لئے میں ان کے قاتلوں کو بدعا نہیں دے سکتا اور جنہوں نے بھی میرے بیٹے کو ہلاک کیا ہے وہ بھی تو کسی کے بچے ہوں گے۔ بچے کے کھونے کا درد تو صرف وہی محسوس کرسکتا ہے جو اپنے بچے کو کھوتا ہے لیکن کیا کریں اس میں شاید اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی ۔