قوم کے نام کووند کا پیغام:کورونا کے خلاف ابھی جنگ جاری ہے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
قوم کے نام کووند کا پیغام:کورونا کے خلاف ابھی جنگ جاری ہے
قوم کے نام کووند کا پیغام:کورونا کے خلاف ابھی جنگ جاری ہے

 

نئی دہلی :آواز دی وائس

آج صدر جمہوریہ رامناتھ کو وند نے اپنے عہدے کی معیاد پوری ہونے سے قبل قوم کے نام خطاب کیا- انہوں نے اپنے پانچ سالہ دور کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں اور ساتھ ہی اس بات پر زور دیا یا کہ کرونا کے خلاف جنگ ابھی باقی ہے اس لیے عوام محتاط رہیں اور احتیاط سے کام کریں -

پیش ہے صدر جمہوریہ کو وند مکمل تقریر 

پیارے ہم وطنو، نمسکار

آج سے پانچ سال پہلے، آپ سب نے مجھ پر بے پناہ اعتماد کیا اور اپنے منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے مجھے بھارت کا صدر منتخب کیاتھا۔ آج میرے عہدے کی مدت پوری ہو رہی ہے۔ اس موقع پر میں ، آپ سب کے ساتھ چند باتیں ساجھا کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے، میں آپ تمام ہم وطنوں اور آپ کے عوامی نمائندوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ملک بھر میں اپنے سفر کے دوران شہریوں کے ساتھ میری بات چیت اور رابطوں سے مجھے مسلسل تحریک ملتی رہی ہے ۔ ہمارے کسان اور مزدور، چھوٹے دیہات میں رہنے والے بھائی بہن، ہمارے اساتذہ ، جو نئی نسل کی زندگیوں کو سنوارتے ہیں، ہماری وراثت کو مالا مال کرنے والے فنکار، ہمارے ملک کے مختلف جہتوں کا مطالعہ کرنے والے اسکالر، ملک کی خوشحالی میں اضافہ کرنے والے کاروباری، ہم وطنوں کی خدمت کرنے والے ڈاکٹر اور نرسیں، قوم کی تعمیر میں مصروف سائنسدان اور انجینئرز، ملک کے عدالتی نظام میں کردار ادا کرنے والے جج اور وکیل، انتظامی نظام کو خوش اسلوبی سے چلانے والے سرکاری ملازمین، ہر طبقے کو ترقی سے جوڑنے میں سرگرم ہمارے سماجی کارکن، بھارتی سماج میں زبردست اعتماد بنائے رکھنے والے سبھی عقیدوں کے اچاریہ اور گرو ، آپ سبھی نے مجھے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مکمل تعاون دیا ہے۔

مختصر یہ کہ مجھے معاشرے کے تمام طبقوں سے مکمل تعاون، حمایت اور آشیرواد حاصل ہوا ہے۔ وہ تمام لمحات ، خاص طور پر میرے ذہن میں نقش ہیں، جب میں اپنی فوج، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے بہادر سپاہیوں سے ملتا تھا۔ ان سبھی میں زبردست حب الوطنی کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔

اپنے غیر ملکی دورون کے دوران، جب بھی میری ملاقات غیر مقیم بھارتیوں کے ساتھ ہوئی ، ہر بار مجھے مادرِ وطن کے تئیں ، اُن کے زبردست پیار اور محبت اور اپنے پن کا احساس ہوا۔ ملک کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ کی تقریبات کے دوران مجھے بہت سی غیر معمولی شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ وہ سبھی پوری لگن،محبت اور پختہ جذبے کے ساتھ ایک بہتر بھارت کی تعمیر میں مصروف ہیں ۔طرح بہت سے ہم وطنوں سے ملاقات کے بعد میرا یقین اور بھی پختہ ہو گیا کہ ہمارے پُر عزم شہری ہی ہماری قوم کے اصل معمار ہیں اور وہ سب بھارت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ ایسے تمام پُر عزم ہم وطنوں کے ہاتھ میں ہمارے عظیم ملک کا مستقبل محفوظ ہے۔

پیارے ہم وطنو

اپنے ان تجربات سے گزرتے ہوئے، مجھے اکثر اپنا بچپن بھی یاد آتا رہا ہے کہ کس طرح اہم تاریخی واقعات ہماری انفرادی زندگی کو متاثر کرتے رہے ہیں ۔ جب میں اپنے چھوٹے سے گاؤں میں زندگی کو ایک عام بچے کے نقطہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، تب ملک کو آزادی حاصل کئے ہوئے کچھ ہی سال ہوئے تھے۔ ملک کی تعمیر نو کے لئے لوگوں میں ایک نیا جوش دکھائی دیتا تھا۔ ان کی آنکھوں میں نئے خواب تھے۔ میرے دِل و دماغ میں بھی ایک دھندلا سا تصور ابھر رہا تھا کہ شاید ایک دن میں بھی اپنے ملک کی تعمیر میں تعاون کر سکوں گا ۔

کچے گھر میں گزر بسر کرنے والے ایک خاندان کے مجھ جیسے ایک عام بچے کے لئے ہمارے جمہوریت کے اعلیٰ ترین آئینی عہدے کے بارے میں کوئی بھی جانکاری ہونا تصور سے بالا تر تھا لیکن یہ بھارت کی جمہوریت کی طاقت ہے کہ ایسے راستے ہر شہری کے لئے کھلے ہیں، جن پر چل کر وہ ملک کی تقدیر سنوارنے میں اپنا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

کانپور دیہات ضلع کے پرونکھ گاؤں کے انتہائی عام خاندان میں پلا بڑھا ، وہ رام ناتھ کووند آج سبھی ہم وطنوں سے خطاب کر رہا ہے ، اس کے لئے میں اپنے ملک کی فعال جمہوریت کے نظام کی قوت کو سلام پیش کرتا ہوں ۔

چونکہ میں نے اپنے گاؤں کا ذکر کیا ہے، اس لئے میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ صدر جمہوریہ کے عہدے کے دوران اپنے آبائی گاؤں کا دورہ کرنا اور کانپور کے اپنے اسکول میں بزرگ اساتذہ کے پیروں کو چھو کر ، ان سے آشیرواد لینا ، میری زندگی کے یادگار لمحات میں ہمیشہ شامل رہیں گے ۔ اسی سال وزیراعظم بھی میرے گاؤں پرونکھ آئے اور انہوں نے میرے گاؤں کی عزت کو بڑھایا ۔ اپنی جڑوں سے جڑے رہنا بھارتی ثقافت کی خصوصیت ہے۔ میں نوجوان نسل سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے گاؤں یا شہر اور اپنے اسکولوں اور اساتذہ سے وابستہ رہنے کی اس روایت کو جاری رکھیں

پیارے ہم وطنو

آج کل تمام ہم وطن ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ منا رہے ہیں۔ اگلے مہینے ہم سب بھارت کی آزادی کی 75ویں سالگرہ منائیں گے۔ ہم 25 سال کی مدت کے ، اُس ’امرت کال‘ میں داخل ہوں گے، جو آزادی کی صدی کے سال یعنی 2047 ءمیں مکمل ہوگا۔

یہ خاص تاریخی سال ہماری جمہوریت کی ترقی کی راہ میں سنگ میل کی مانند ہیں۔ ہماری جمہوریت کا یہ ترقی کا سفر ملک کے سنہری امکانات کو عملی جامہ پہنا کر عالمی برادری کے سامنے ایک عظیم بھارت کو پیش کرنے کا سفر ہے۔

جدید دور میں ہمارے ملک کا یہ شاندار سفر برطانوی دور ِحکومت میں قوم پرستانہ جذبات کی بیداری اور جدوجہد آزادی سے شروع ہوا تھا۔ انیسویں صدی کے دوران پورے ملک میں آزادی کے خلاف کئی بغاوتیں ہوئیں۔ ایسی بغاوتوں کے اکثر ہیروز کے نام، جنہوں نے اہل وطن میں نئی ​​امیدیں جگائی تھیں، بھلا دیئے گئے تھے۔ اب ان کی بہادری کی داستانیں احترام کے ساتھ یاد کی جا رہی ہیں۔

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں نئے عوامی شعور کی تشکیل ہو رہی تھی اور جدوجہد آزادی کے بہت سے دھارے رواں تھے۔ جب گاندھی جی سال 1915 ء میں وطن واپس آئے تو اس وقت ملک میں قوم پرستی کا احساس مضبوط ہو رہا تھا۔

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ہمارے ملک کو ، عظیم عوامی رہنماؤں کی روشن کہکشاں جیسی رہنمائی حاصل ہوئی ، جو دنیا کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ جہاں ایک طرف گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور دورِ جدید کے ایک بابا کی طرح ہم وطنوں کو ہمارے ثقافتی ورثے سے جوڑ رہے تھے، وہیں دوسری طرف بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر برابری کے نظریے کی ایسی پُر زور وکالت کر رہے تھے ، جو زیادہ تر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نظر نہیں آتی تھی ۔ تلک اور گوکھلے سے لے کر بھگت سنگھ اور نیتا جی سبھاش چندر بوس تک؛ جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل اور سیاما پرساد مکھرجی سے لے کر سروجنی نائیڈو اور کملا دیوی چٹوپادھیائے تک –

ایسی بہت سی شخصیات کا صرف ایک ہی مقصد کے لئے کوشاں ہونا انسانیت کی تاریخ میں اور کہیں نظر نہیں آتا ۔ میرے ذہن میں بہت سی دوسری شخصیات کے نام ابھر رہے ہیں لیکن میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آزاد بھارت کے مختلف نظریات رکھنے والے بہت سے عظیم لیڈروں نے بھارت کی آزادی کے لئے ایثار و قربانی کی شاندار مثالیں پیش کیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گاندھی جی کے تبدیلی کے نظریات نے جدوجہد آزادی پر سب سے زیادہ اثر ڈالا اور اس دوران انہوں نے بہت سے ہم وطنوں کی زندگی کے دھارے کو ایک نئی سمت دی۔ خواتین و حضرات، جمہوریت کے ، جس راستے پر آج ہم آگے بڑھ رہے ہیں ، اس کا خاکہ ہماری دستور ساز اسمبلی نے تیار کیا تھا۔ اس اسمبلی میں 15 خواتین بشمول ہنسابین مہتا، درگابائی دیش مکھ، راج کماری امرت کور اور سچیتا کرپلانی پورے ملک کی نمائندگی کرنے والی کئی معزز شخصیات میں شامل تھیں۔

دستور ساز اسمبلی کے ممبران کی انمول شراکت سے تشکیل دیا گیا دستور ِہند ہمارا روشن مینار رہا ہے اور اس میں پوشیدہ نظریات قدیم زمانے سے محفوظ بھارتی اقدار کا حصہ ہیں۔ آئین کو اپنانے سے ایک دن پہلے دستور ساز اسمبلی میں اپنے اختتامی بیان میں، ڈاکٹر امبیڈکر نے جمہوریت کے سماجی اور سیاسی جہتوں کے درمیان فرق کو واضح کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں صرف سیاسی جمہوریت سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ میں آپ سب کے ساتھ ، اُن کے الفاظ شیئر کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا، ’’ ہمیں اپنی سیاسی جمہوریت کو ایک سماجی جمہوریت بھی بنانا چاہیے۔ اگر سیاسی جمہوریت ، سماجی جمہوریت پر مبنی نہ ہو تو یہ ٹک نہیں سکتی ۔ سماجی جمہوریت کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب ہے ، زندگی کا وہ طریقہ ، جو آزادی ، برابری اور بھائی چارے کو زندگی کے اصولوں کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔

آزادی ، برابری اور بھائی چارے کے ، اِن اصولوں کو تری مورتی کے الگ الگ حصوں کےطور پر نہیں دیکھنا چاہیئے ۔ ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ اُن میں سے کسی بھی حصے کو ایک دوسرے سے الگ کرنے پر جمہوریت کا حقیقی مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے ۔ زندگی کی قدروں کی یہ تثلیث مثالی، فیاض اور متاثر کن ہے۔ اس تثلیث کو محض ایک تصور سمجھنا غلط ہوگا ۔

صرف جدید ہی نہیں بلکہ ہماری قدیم تاریخ بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ تین اقدار ہماری زندگی کی حقیقت ہیں۔ انہیں حاصل کیا جا سکتا ہے اور درحقیقت انہیں مختلف دور میں حاصل کیا بھی گیا ہے ۔ ہمارے آباء و اجداد اور ہماری جدید قوم کے معماروں نے اپنی سخت محنت اور خدمت کے جذبے سے انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے نظریات کو حقیقت میں بدلا تھا ۔ ہمیں صرف ان کے نقش قدم پر چلنا ہے اور آگے بڑھتے رہنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے تناظر میں ایک عام شہری کے لئے ایسی اقدار کا کیا مطلب ہے؟

میرا ماننا ہے کہ ان اقدار کا بنیادی مقصد عام آدمی کے لئے خوشگوار زندگی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے عام لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ اب وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہم اس سمت میں کام کر رہے ہیں کہ ہر خاندان کو بہتر رہائش، اور پینے کے پانی اور بجلی تک رسائی حاصل ہو۔

یہ تبدیلی ترقی کی بڑھتی ہوئی رفتار اور اچھی حکمرانی سے ہی ممکن ہوئی ہے ، جو مکمل طور پر امتیازی سلوک سے پاک ہے۔ بنیادی ضروریات کی فراہمی کے بعد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہر شہری خوشی کے مواقع تلاش کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور اپنی ذاتی خوبیوں کا صحیح استعمال کرکے اپنی قسمت کی خود تشکیل کرے ۔

اس سمت میں آگے بڑھنے کا بنیادی ذریعہ تعلیم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ’قومی تعلیمی پالیسی ‘نوجوان بھارتیوں کے لئے اپنے ورثے سے جڑنے اور اکیسویں صدی میں اپنے قدم جمانے میں بہت مددگار ثابت ہوگی۔ صحت کی اچھی خدمات ان کے ترقی پذیر مستقبل کے لئے ضروری ہیں۔

کووڈ کی عالمی وبا نے صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے میں مزید بہتری کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے اس کام کو اولین ترجیح دی ہے۔ تعلیم اور صحت کی خدمات سے فائدہ اٹھا کر ہمارے اہل وطن اس قابل بن سکتے ہیں اور معاشی اصلاحات کا فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی کی تعمیر کا بہترین طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔ 21ویں صدی کو بھارت کی صدی بنانے کے لئے ہمارا ملک اہل ہو رہا ہے ، یہ میرا پختہ یقین ہے۔

پیارے ہم وطنو 

اپنے عہدے کے پانچ برسوں کے دوران، میں نے اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اپنے فرائض ادا کئے ہیں۔ میں ڈاکٹر راجندر پرساد ، ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جیسی عظیم شخصیات کا وارث ہونے کے ناتے بہت محتاط رہا ہوں۔ جب میں راشٹرپتی بھون میں داخل ہوا تو میرے اس وقت کے پیشرو جناب پرنب مکھرجی نے بھی مجھے اپنے فرائض کے بارے میں دانشمندانہ مشورے دیئے ۔

اس کے باوجود، جب بھی مجھے کوئی شک ہوا، میں نے گاندھی جی اور ان کے تجویز کردہ منتر کا سہارا لیا۔ گاندھی جی کی صلاح کے مطابق سب سے اچھا رہنما اصول یہ تھا کہ ہم سب سے غریب آدمی کے چہرے کو یاد کریں اور خود سے یہ سوال پوچھیں کہ ہم جو یہ قدم اٹھانے جا رہے ہیں ، کیا وہ اُس غریب کے لئے معاون ہوگا؟

میں گاندھی جی کے اصولوں پر اپنے پختہ یقین کو دوہراتے ہوئے ، آپ سب سے یہ اپیل کروں گا کہ آپ روزانہ ، کچھ لمحوں کے لئے ہی صحیح گاندھی جی کی زندگی اور تعلیمات پر ضرور غور کریں۔ پیارے ہم وطنو، ہم سب کے لئے ماں کی طرح قابل احترام فطرت شدید درد سے گزر رہی ہے ۔

آب و ہوا میں تبدیلی کا بحران ہماری زمین کے مستقبل کے لئے سنگین خطرہ بنا ہوا ہے ۔ ہمیں اپنے بچوں کی خاطر اپنے ماحول، اپنی زمین، ہوا اور پانی کا تحفظ کرنا ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اور روزانہ کی چیزوں کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اپنے درختوں، دریاؤں، سمندروں اور پہاڑوں کے ساتھ ساتھ دیگر سبھی جانوروں کے تحفظ کے لئے بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اولین شہری ہونے کے ناطے اگر مجھے اپنے ہم وطنوں کو کوئی مشورہ دینا ہے تو میں یہی صلاح دوں گا ۔ اپنے بیان کا اختتام کرتے ہوئے ، میں ایک بار پھر سبھی ہم وطنوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بھاررت ماتا کو سلام پیش کرتے ہوئے ، میں آپ سبھی کے روشن مستقبل کی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ شکریہ،

جے ہند!