خالصتانی مہم کوپاکستان کی شہ : ٹیری مائلوسکی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-02-2021
  پروجیکٹ آف پاکستان نامی  کتاب
پروجیکٹ آف پاکستان نامی کتاب

 

قومی راجدھانی دہلی کی سرحدوں پر جاری کسان تحریک کے پس منظر میں بار بار خالصتان کا ذکر آتا ہے- لال قلعہ پر مبینہ خالصتانی پرچم لہرانے سے بھی یہ تنازعہ تیز ہوا ہے- لیکن اس خالصتانی مہم کو کس طرح پاکستان نے حوصلہ دیا ہے اور اسکے پیچھے اسکا کیا مقصد ہے، اسکے بارے میں ایک کتاب آئی ہے، جو بڑے سنسنی خیز انکشافات کرتی ہے - پوری خالصتانی مہم کوپاکستان کا بغل بچہ ثابت کرنے والی اس کتاب "خالصتان: آ پروجیکٹ آف پاکستان " کو کناڈا کے سرکردہ صحافی ٹیری مائلوسکی نے لکھا ہے

اس کتاب میں مائلوسکی نے انکشاف کیا ہے کہ خالصتان کا پورا تصور ہی پاکستان کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے- جو کناڈا اور ہندوستان کی سلامتی کے لئے بھی خطرہ ہے- اس کتاب کو ایئر انڈیا کے طیارے کنشک میں دھماکے کے پینتیس سال پورے ہونے کے موقعہ پر لکھا گیا ہے اور مائلوسکی اس کتاب میں خالصتانی دہشت گردی کے اسباب کے پہلووں کی جانچ کی ہے- وہ دھاگہ بھی کھوجنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح پاکستان میں دہشت گردی کے اصولوں کو اپنی سفارت کا حصہ بنا لیا ہے۔

اس کتاب کی تمہید کناڈا کے سابق وزیر اور برٹش کولمبیا کے وزیر اعظم اجول دوسناج اور کناڈا کی وزارت خارجہ کے سابق پالیسی معاملوں کے ڈائریکٹر شبھالے مجمدار نے لکھی ہے- اس کتاب کی تمہید میں ہی اجول دوسناج نے لکھا ہے کہ آزاد خالصتان کا تصور ہی گزرے ہوئے وقت کا فرسودہ خیال ہے- اس کے پیچھے کوئی معاشی یا جمہوری منطق نہیں ہے- اور زیادہ تر پنجابیوں پر اس کا براہ راست اثر ہوگا اس خیال سے اتفاق نہیں رکھتے- یہ ایسا تصور ہے جسکی جڑیں ،مذھبی شدت اور سازشی ذہن میں پیوست ہیں- جسے کناڈا میں ٹھگوں اور سیاسی سوداگروں نے زندہ رکھا ہے- جن کا معصوم جانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

اس کتاب میں مائلوسکی لکھتے ہیں کہ غور سے دیکھنے پر صاف ہوتا ہے کہ اس دہشت گرد تحریک کو چلانے کے پس پردہ اصل میں خالصتانی نہیں بلکہ پاکستانی لوگ تھے- اور انکا مقصد قطعی صاف نہیں تھا- مائلوسکی کتاب کی شروعات میں 1992 کے اکتوبر میں پنجاب پولیس کے ساتھ تصادم میں مارے گۓ خالصتانی دہشت گرد تلوندر سنگھ پرمار کا ذکر کرتے ہیں جس نے 1985 میں ایئر انڈیا کے دو طیاروں میں بم رکھے تھے- ان میں سے کنشک میں تو دھماکہ ہو گیا اور جس میں 329 افراد ہلاک ہو گۓ تھے- لیکن دوسرا بم جاپان کے نریتہ ایئر پورٹ پر ہی پھٹ گیا جس میں دو سامان اٹھانے والے مارے گۓ تھے۔

کتاب میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ کس طرح پرمار کے ساتھ تصادم میں مارے گۓ حملہ آوروں میں سے دو غیر سکھ تھے- دونوں کے پاس پاکستانی پاس پورٹ تھے- اور دونوں آئ ایس آئ کے لوگ تھے- اس کتاب میں مایلوسکی ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح بنگلہ دیش کے پاکستان سے الگ ہونے کے بعد اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذُوالفِقار علی بُھٹّو نے وہاں کے میڈیا کو بتایا تھا کہ پاکستان بھی ہندوستان سے ایک بنگلہ دیش باہر نکالے گا اور امید رکھئے کہ یہ پاکستان کی سرحد سے متصل ہوگا- لیکن خالصتان کا مسئلہ صرف پاکستان کے انتقام کے جذبے سے جڑا نہیں رہا اور بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اسے اور تیز کیا۔

اس کتاب میں واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا ذکر ہے جس میں حقانی کہتے ہیں کہ ہندوستان کو لہو لہان کرنا یقینی طور پر اصل مقصد تھا- لیکن دوسرا مقصد ہندوستان اور پاکستان کے بیچ ایک بفر ریاست بنانا تھا- تیسرا مقصد تھا خالصتان ہندوستان کی کشمیر تک پہنچ کو ختم کرے دیگا- ظاہر ہے کشمیر کا معاملہ پاکستان کے آقاؤں کے لیے زیادہ دلچسپی کا تھا- اپنی بات چیت میں حقانی نے آگے کہا ہے کہ بھلے ہی سکھ ملک کا قیام مشکوک ہے لیکن اس سے ہمارا اصل مقصد ضرور پورا ہوتا ہے اور وہ ہے ہندوستان کو درد پہنچاتے رہنا ہے- اس کتاب میں ایک اور سرکردہ خالصتانی دہشت گرد کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اجاگر کیا گیا ہے- اسکا نام ہے گوپال سنگھ چاولہ- چاولہ لشکر طیبہ کا رکن ہے- ممبئی حملوں میں جس میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے، چاولہ کا ہی ہاتھ بتایا جاتا ہے۔

چاولہ نے ایک ہندوستانی صحافی سے کہا تھا کہ حافظ سعید اسکا آئیڈیل ہے- مختصر یہ کہ یہ کتاب خالصتانی تحریک کے پیچھے پاکستانی سازش کی پرتوں کو کھولتی ہے- ٹیری خود ایک تجربہ کار صحافی ہیں-