کیرلہ: ممتاز اسلامی مفکر ٹی کے عبد اللہ کا انتقال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-10-2021
کیرلہ: ممتاز اسلامی مفکر ٹی  کے عبد اللہ کا انتقال
کیرلہ: ممتاز اسلامی مفکر ٹی کے عبد اللہ کا انتقال

 

 

مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی

استاذ جامعہ اسلامیہ شانتاپورم (کیرلا)

 قاضی کوڈ : ایک عظیم فکری رہ نما مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی استاذ جامعہ اسلامیہ شانتاپورم (کیرلا) کیرلا اور جماعت اسلامی ہند کے حلقوں میں مشہور فکری اور تحریکی رہنما جناب ٹی کے عبد اللہ صاحب آج (15 اکتوبر 2021) صبح آٹھ بجے خالق حقیقی سے جاملے ، وہ جماعت اسلامی کیرلا کے سابق امیر ، جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے ممبر اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تاسیسی ممبر تھے ۔

انا للہ و انا الیہ راجعون

 *ابتدائی زندگی* ٹی کے عبد اللہ صاحب کی ولادت 1929 میں کالی کٹ ضلع کے آینچیری گاؤں میں ایک تعلیم یافتہ خاندان میں ہوئی تھی ، ان کے والد عبد الرحمن موسی مسلیار ( کیرل میں علماء کے لیے مولانا کی جگہ مسلیار کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے )اپنے علاقے کے مشہور عالم دین تھے۔

،  ٹی کے عبد اللہ صاحب نے کیرل کے مشہور و معروف اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی ، انہوں نے دارالعلوم وایکاڈ ، ترورنگادی جامع مسجد ، مدینۃ العلوم پولیکل اور عالیہ عربک کالج میں تعلیم حاصل کی تھی ، مگر عالمیت اور فضیلت کی تکمیل وہ نہیں کر سکے تھے ، فضیلت کی تکمیل سے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی انہوں نے رسمی طور سے تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دیا تھا اور جماعت اسلامی کو اپنا مکمل وقت دینے لگے تھے ۔

،  *جماعت اسلامی سے تعلق* طالب علمی کے زمانے میں ہی جماعت اسلامی کے ہفتہ وار ملیالم اخبار پربھودھنم ( دعوت ) سے جڑ گئے تھے ،اور مولوی ٹی اسحق صاحب مرحوم کے ساتھ مل کر بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی رح کی تفسیر تفہیم القرآن کے پہلے حصے کا ترجمہ کیا تھا ۔

۔ 1959 میں جماعت اسلامی کے رکن بنے ، اور 1972 میں جماعت اسلامی کے کیرلا حلقے کے امیر بنائے گئے اور انیس سو ستہتر تک وہ اس منصب پر فائز رہے ، 1982 میں دوبارہ کیرلا حلقے کے امیر مقرر ہوئے اور 1984 تک امیر رہے ، وہ کیرلا میں جماعت اسلامی کے تیسرے بڑے رہنما تھے ، ان سے سینیر صرف دو بڑی شخصیات تھیں ، حاجی محمد علی صاحب مرحوم اور کے سی عبد اللہ مولوی مرحوم ۔  کیرلا میں مولوی یا مولانا نام کے آخر میں بولتے اور لکھتے ہیں ۔ط

، سنی حضرات علماء کے نام کے آخر میں مسلیار لکھتے اور بولتے ہیں ، اہل حدیث اور جماعت اسلامی والے اپنے بعض علماء کے نام کے آخر میں مولوی لکھتے اور بولتے ہیں ، کیرل کی ان دونوں جماعتوں میں علماء کو مولانا کہنے کا رواج نہیں ہے ۔

کیرل میں مولانا کہنے کا زیادہ رواج تبلیغی جماعت کے حلقوں میں ہے۔

حاجی صاحب مرحوم نے مولانا مودودی رح کی صحبت میں 1942-1945 تین سال گزارے تھے اور وہ کیرلا میں جماعت اسلامی کے پہلے امیر تھے ، 1959 میں ان کے انتقال کے بعد کے سی عبد اللہ صاحب امیر مقرر ہوئے تھے ، ان کا انتقال 1995 میں ہوا تھا۔

 کے سی عبد اللہ صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد کیرل میں جماعت اسلامی کے سب سے بڑے مرجع ٹی کے عبد اللہ صاحب ہی تھے۔

وہ ایک فکری مربی تھے ، جماعت اسلامی ،اور الاخوان المسلمون جیسی جدید اسلامی تحریکات کی تاریخ اور طریق کار پر ان کی گہری نظر تھی ، اور یہی ان کا موضوع تھا ۔

وہ کافی ذہین ، ہنس مکھ اور علم دوست آدمی تھے* 

  *ان کی علم دوستی پر ایک قصہ یاد آگیا**

 سات آٹھ سال قبل کی بات ہے ، میں جامعہ اسلامیہ شانتاپرم کیرالا کی مرکزی عمارت کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا اور ٹی کے عبد اللہ صاحب اپنے بعض محبین کی معیت میں سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ، میں نے سلام کیا ، انہوں نے جواب دیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا ، کچھ دیرتک میرا ہاتھ پکڑے رہے اور کہا آپ سے علامہ اقبال کے مشہور شعر

 ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

کا مطلب سمجھنا ہے

،  میں نے کہا میرا ابھی کلاس ہے ، تو انہوں نے کہا آپ کل کسی وقت آئیے میں پرسوں تک یہاں ہوں۔

 کل ہوکر میں ان کے کمرے میں پہونچا ، میں نے شعر کا مطلب سمجھایا ، اس کے بعد انہوں نے چند سوالات کیے اور میں نے سب کا جواب دیا ، آدھے گھنٹے کے سوال و جواب کے بعد انہوں نے کہا  میں نے اس شعر کا مطلب سمجھنے کے لیے بنگلور وغیرہ کے اردو کے کئی بڑے بڑے پروفیسروں سے ملاقات کی ، مگر کوئی مجھے مطمئن نہیں کر پایا ، مگر آپ نے مجھے مطمئن کردیا ۔  *تصنیفات* 

 ٹی کے عبد اللہ صاحب ان لوگوں میں سے تھے جو رجال سازی کا کار عظیم انجام دیتے ہیں ، وعظ وارشاد اور تحریکی کاموں کے دوڑ بھاگ میں تصنیف و تالیف کا وقت انہیں نہیں ملتا ، وہ بے مثال خطیب تھے ، ستاسی اٹھاسی سال کی عمر میں کھڑے ہوکر ایک گھنٹہ تقریر کرتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے ، جماعت اسلامی کا کوئی بڑاپروگرام ان کی شرکت اور تقریر کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ۔

مگر رجال سازی کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملیالم میں چند کتابیں بھی تصنیف کی ہیں ، جن میں سے تین کتابوں کا ذکر خیر مناسب سمجھتا ہوں۔

 ختم نہ ہونے والے پیدل راستوں میں*

یہ ان کی خود نوشت سوانح ہے

- *اقبال کی تلاش*

علامہ اقبال کی نظمیں*

 ٹی کے عبد اللہ صاحب کیرل کی ان دو شخصیات میں سے ہیں جنہیں ماہرین اقبالیات کہا جاسکتا ہے ، اور جنہوں نے اپنی تقریروں میں علامہ اقبال کے اشعار گنگناکر علامہ اقبال کے پیغام کو گھر گھر تک پہونچا دیا ہے۔

 علامہ اقبال سے محبت کرنے والی دوسری بڑی شخصیت ممبر لوک جناب عبد الصمد صمدانی صاحب کی ہے ، یہ بہت بڑے مقرر ہیں ،مسلم لیگ کے بڑے لیڈر ہیں ، بارہ سال راجیہ سبھا کے اور پانچ سال کیرلا اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں اور اپریل دوہزار اکیس میں ضمنی انتخاب میں ملپورم لوک سبھا سے منتخب ہوئے ہیں ۔