کشمیر:الطاف کی شہد کی مکھیاں کیسے راجستھان کے کسانوں کی مددگار بن گئیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 07-01-2022
 کشمیر:الطاف کی شہد کی مکھیاں کیسے راجستھان کے کسانوں کی مددگار بن گئیں
کشمیر:الطاف کی شہد کی مکھیاں کیسے راجستھان کے کسانوں کی مددگار بن گئیں

 


احسان فاضلی،سری نگر

جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے الطاف احمد بھٹ اپنے علاقے میں سب سے زیادہ شہد پیدا کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ فی الوقت ضلع میں 400 سے زیادہ شہد کی مکھیاں پالنے والے کسان ہیں۔ الطاف احمد بھٹ سالانہ 150 سے 200 کوئنٹل کے درمیان شہد کی پیداوار کرتے ہیں۔اب وادی کے کسانوں کا رجحان بدلنے لگا ہے۔ اب وادی کےشہد اور سبزیوں کی پیداور کی طرف دلچسپی لینے لگے ہیں۔ جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس ضلع میں 2379 مربع کیلو میٹر جنگلات ہیں، جن میں سے 1651 مربع کیلو میٹر رقبے میں کسان اپنے لیے استعمال کر رہےہیں۔

خیال رہے کہ وادی کے دیگر اضلاع کے مقابلے کپواڑہ میں1900 سے زائد کسان شہد کے کاروبار سے وابستہ ہیں، جن میں سے 408 رجسٹرڈ ہیں۔

سنہ 2005 میں بارہویں جماعت کرنے بعد کپواڑہ ضلع کے دورافتادہ گاؤں گلگام سے تعلق رکھنے والےالطاف احمد بھٹ نوکری کی تلاش میں بھٹک رہے تھے، مگر انہیں ان کے مطابق کام نہ ملا۔ اس لیے وہ اپنے والد کے پیشہ سے وابستہ ہوگئے۔

ان کے والد شہد کی مکھیاں پال رہے تھے۔ اس وقت وہ بہت چھوٹے پیمانے پر شہد کی مکھیاں پالا کرتے تھے، جسٍ کی وجہ سے شہد بھی کم پیدا ہوتی تھیں۔ تاہم وہ زندہ دلی کے ساتھ اس کام میں لگے اور بالآخر آج وہ اس میدان میں بہت آگے نکل گئے۔

الطاف احمد بھٹ نے آواز دی وائس کو بتایا کہ سنہ 1985 میں کپواڑہ ضلع میں اپیکلچر سنٹر( Apiculture Center ) قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت میرے والد شہد کی پیداوار کے لیے پانچ کالونیوں کا ایک یونٹ حاصل کرنے والے پہلے لوگوں میں شامل تھے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے والد نے سنہ 1987 میں باضابطہ پیشہ وارانہ طور پر شہد کی مکھیاں پالنا شروع کیا۔ سنہ 2005 تک وہ چھوٹے پیمانے پر اس کا کاروبار کرنے کے لائق ہوگئے تھے، اسی دوران الطاف اس سے وابستہ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے والد کو محکمہ جنگلات اور محکمہ زراعت کی جانب سے بھی برابر تعاون ملتا رہا۔ الطاف احمد بھٹ اور ان کے والد نے اس میں مزید ترقی کی۔ انہوں نے بلگام میں تین کنال اراضی حاصل کر وہاں شہد کی مکھیوں کے چھتے نصب کر دیے۔ یہاں نے پانچ سو چھتے نصب ہیں۔

ان میں سے تقریباً 50 فیصد ڈبوں کو وہ کپواڑہ سے دیگر مقامات مثلاً جموں اور گجرات اور راجستھان میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ معیاری شہد کی پیداوارحاصل کی جا سکے۔ 

awazurdu

الطاف احمد کا ایک کامیاب پروجیکٹ


الطاف احمد نے کہا کہ وہ سال بھر شہد کی مکھیوں کے ساتھ جگہ جگہ گھومتے رہتے ہیں اور ہر جگہ تقریباً دو ماہ قیام کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مکھیوں کے تقریباً 200 چھتے ستمبر اور اکتوبر کے درمیان جموں کے گرم ماحول میں آخری بار رکھے گئے تھے۔

کسی خاص جگہ پر قیام کا دورانیہ بنیادی طور پر موسمی حالات پر منحصر ہوتا ہے، کیونکہ شہد کی مکھیوں کو عام طور پر خشک موسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ نومبر سے دسمبر کے وسط تک یونٹوں کو راجستھان منتقل کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ فی الوقت ان کی یونٹس گجرات میں تعینات ہیں۔

الطاف نے انکشاف کیا کہ سرسوں کے پھولوں کو شہد کی مکھیاں زیادہ پسند کرتی ہیں۔ اور اس سے جہاں فصل کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے وہیں ان پھولوں کے رس سے ہونے والے شہد کی بھی بازار میں بہت مانگ ہے۔

یونٹس کو 22 جنوری سے 25 فروری تک گجرات سے راجستھان منتقل کیا جا رہا ہے، جب کہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات کسان برداشت کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان یونٹس کو 25 فروری سے جموں منتقل کر دیا جائے گا تاکہ وہ 26 اپریل تک قیام کریں، اور موسم بہار میں واپس کشمیر منتقل ہو جائیں۔ کشمیر میں کیکر کے درختوں (Robinia pseudoacacia) کے پھولوں سے رس یا امرت چوسنے کا عمل مئی کے اوائل میں شروع ہوتا ہے، جب کہ یہ عمل دیگر موسمی زراعت یا جنگلی پھولوں کے ساتھ سالوں بھر جاری رہتا ہے۔الطاف احمد بھٹ کے لیے، شہد کی پیداوار دراصل سال بھر کی سرگرمیوں کا عمل ہے، جس میں انہیں خاطر خواہ فائدہ ہو رہا ہے۔۔

چیف ایگریکلچر آفیسر (سی اے او)، کپواڑہ کے مطابق، گھریلو، قومی اور بین الاقوامی منڈیوں میں شہد کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے ضلع میں یہ کاروبار کافی ترقی کر رہا ہے۔ محکمہ زراعت کسانوں کو تربیت اور توسیعی خدمات کے ساتھ سبسڈی پر شہد کی مکھیوں کے چھتے فراہم کر رہا ہے۔

awazurdu

اس وقت ضلع کے پاس 6000 کالونیاں ہیں جن میں 400 بڑے اور چھوٹے شہد کی مکھی پالنے والے اس کاروبار سے وابستہ ہیں جس کا سالانہ کاروبار 400 کروڑ روپے سے زائد ہے۔محکمہ کے ایک افسر نے بتایا کہ بہت سے نوجوان اس شعبے کی طرف آرہے ہیں۔

جموں و کشمیر حکومت شہد کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے وادی بھر میں یونٹ ہولڈروں کو تربیت اور سبسڈی فراہم کر رہی ہے۔ حکام کے مطابق گزشتہ سال (2021) کے دوران کشمیر بھر میں کم از کم 85,000 کالونیاں کام کر رہی تھیں، اس سے پہلے 2020 میں یہ تعداد 70,000 تھی۔

 دی نیشنل بی بورڈ(The National Bee Board) پہلے سے ہی شہد کی مکھی پالنے والوں کی تعداد کو پہلے سے ہی رجسٹر کرنے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے، جس نے گزشتہ سال کے آخر تک ایسے 1881 کاروباری افراد کو ریکارڈ کیا تھا۔