لو جہاد قانون بنیادی حقوق کے خلاف:گجرات ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 20-08-2021
گجرات ہائی کورٹ
گجرات ہائی کورٹ

 

 

احمدآباد/نئی دہلی

لو جہاد کاقانون پرگجرات ہائی کورٹ نے سختی دکھائی ہے۔ گجرات سرکار نے 15/جولائی کو ”مذہبی آزادی (ترمیم شدہ) ایکٹ 2021“ نافذ کیا تھا، اس کے بعد بہت سارے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدما ت عائد کیے گئے،

اس قانون کی رو سے جبریہ طور سے بین مذاہب شادی کرنے والوں کو دس سال کی سزا ہوگی اور پانچ لاکھ کا جرمانہ دینا پڑے گا۔ اس معاملے میں جمعیۃ علما ء ہند ( محمودمدنی گروپ) نے گجرات ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ محمد عیسی حکیم اور سینئر وکیل مہر جوشی آج عدالت میں پیش ہوئے۔ معاملے میں طرفین کی بحث سننے کے بعد آج جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس ویرن وشنو کی دو رکنی بنچ نے مذکورہ قانون کی دفعہ 3، 4، 4A، 4B، 4C، 5، 6 اور 6A پر فوری روک لگا دی ہے۔

اس ایکٹ کی دفعہ 3 میں شادی کے ذریعے زبردستی تبدیلیِ مذہب یا شادی کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کی مدد کو جرم مانا گیا ہے۔دفعہ 3Aمیں والدین، بھائی، بہن یا کسی خونی و سسرالی رشتہ دار کی طرف سے جبری تبدیلیِ مذہب کی شکایت کی جاسکتی ہے۔

دفعہA 4 میں غیر قانونی تبدیلیِ مذہب کے لیے 3 سے 5 سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔دفعہ4B میں غیر قانونی تبدیلی مذہب کے ذریعہ کی گئی شادی کوکا لعدم قرار دیا گیا ہے۔دفعہ 4C میں غیرقانونی تبدیلی ِمذہب میں ملوث تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔دفعہ 6A میں ملزم پر ہی ثبوت دینے کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔

عدالت نے ان تمام دفعات پر روک لگاتے ہوئے کہا یہ بالغوں کی آزادانہ رضامندی پر مبنی بین المذاہب شادیوں پر لاگو نہیں ہوں گی۔سماعت کے دوران جج صاحبان نے زبانی طور پر مشاہدہ کیا کہ مذہب اور شادی ذاتی انتخاب کے معاملات ہیں،

حالاں کہ ان کے مطابق جس لمحے کوئی شخص بین المذاہب شادی انجام دیتا ہے اور اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہو تی ہے تو اس شخص کو جیل بھیج دیا جاتاہے اور اس کے علاوہ ثبوت کا بوجھ بھی اسی ملزم پر ڈال دیا جاتا ہے۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ گر کوئی شخص شادی کرتا ہے تو کیا حکومت اسے جیل بھیجے گی اور پھر اطمینان حاصل کرے گی کہ شادی زبردستی کی گئی تھی یا لالچ میں؟

جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے عدالت سینئر وکیل کا یہ اصرار تھا کہ یہ قانون ذاتی خودمختاری، آزادانہ انتخاب، مذہبی آزادی اور آئینی طور سے امتیازی سلوک پر مبنی ہے اور آئین کی دفعات 14، 21 اور 25 سے متصادم ہے، اس لیے اس کو فوری طور سے کالعدم قرار دیا جائے۔

اس سلسلے میں دیگر دفعات پر سماعت جاری رہے گی۔ جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منفی پس منظر میں قانون بنانے والوں کو سرکار نے آئینہ دکھا یا ہے، اس قانون کی جن شقوں پر عدالت نے محض تیسری شنوائی میں ہی پابندی لگائی ہے،

ان کے اجزاء دہشت گردی مخالف قانون یواے پی اے سے بھی سخت ہیں، آپ ایک سماجی مسئلہ کو اس طرح ٹریٹ نہیں کرسکتے، اس سے مسئلے،حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو ں گے۔