خواتین کی شادی کی عمر میں اضافہ غیر دانشمندانہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
  خواتین کی شادی کی عمر میں اضافہ غیر دانشمندانہ
خواتین کی شادی کی عمر میں اضافہ غیر دانشمندانہ

 

 

آواز دی وائس،نئی دہلی

امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں خواتین کے لئے شادی کی قانونی عمر میں اضافہ کرنے کی پیش کردہ تجویز پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی کابینہ نے ابھی حال ہی میں ایک نئے بل کو متعارف کرانے کی منظوری دی ہے جس کے تحت ”بچوں کی شادی پر پابندی کا قانون  2006“ میں ترمیم کرکے خواتین کی شادی کی قانونی عمر کو18 سال سے بڑھا کر 21 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں خواتین کے لئے شادی کی قانونی عمر کو بڑھا کر 21 سال کرنا کوئی دانشمندانہ اقدا م ہے۔موجودہ وقت میں پوری دنیا میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ خواتین کے لئے شادی کی قانونی عمر 18 سال ہونی چاہئے۔

بہت سے ممالک جن میں متعدد ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں، اسی رائے پرعمل کررہے ہیں“۔

انہوں نے مزید کہا کہ ” حکومت کو لگتا ہے کہ شادی کی عمر بڑھا کر 21 سال کردینے سے خواتین تاخیر سے ماں بنیں گی، شرح تولید کم ہوگی اور ماؤں اور بچوں کی صحت میں بہتری آئے گی۔مگر اعدادو شمار سے اس نقطہ نظر کی توثیق و تصدیق نہیں ہورہی ہے۔

اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کی خراب صورت حال غربت اورقلت تغذیہ کی وجہ سے ہے۔ اگر صحت کی ناقص دیکھ بھال اور غربت کی حالت اسی طرح بلند سطح پر رہتی ہے تو عمر کی حد میں اضافہ کردینے سے اس صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض ایسی ریاستوں میں بھی شرح تولید کم ہے جہاں کم عمری میں شادی کا عام رواج  پایا جارہا ہے۔لہٰذا یہ فرض کرلینا کہ خواتین کی شادی کی قانونی عمر میں توسیع کردینا،ان میں بہتری لائے گا، غلط ہے اور تجرباتی اعدادو شمار سے میل نہیں کھاتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ اقدام قانون ِ فطرت کے بھی خلاف ہے۔ اس کی وجہ سے نفسیاتی، طبی، سماجی اور انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہوں گے۔ بعض سروے سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ خواتین جو 30 سال کی عمر کے بعد پہلی بار ماں بنتی ہیں،انہیں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عمر کی حد میں اضافے کا طویل مدتی اثر ہمارے ملک کی آبادی پر بھی پڑے گا، یہاں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔یہ نوجوان آبادی کسی بھی ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔جب یہ تجویز قانون کی شکل لے لے گی تو یہ قبائلی برادریوں پر منفی اثر ڈالے گی اور قانون نافذ کرنے والی مشینری انہیں مزید ہراساں کرے گی“۔

امیر جماعت نے مزید کہا کہ ” حکومت کو جلد بازی میں قانون پاس نہیں کرناچاہئے بلکہ طبقات کے  رہنماؤں اور متعلقہ موضوع کے ماہرین سے اس مسئلے پر بات چیت کرکے اتفاق رائے لی جائے۔(پریس ریلیز)