فیملی کونسلنگ کے لیے مسلم پرسنل لا سے واقفیت ضروری: رضی الاسلام ندوی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 29-10-2021
کونسلنگ کے لیے مسلم پرسنل لا سے واقفیت ضروری
کونسلنگ کے لیے مسلم پرسنل لا سے واقفیت ضروری

 

aw

        ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

    جماعت اسلامی ہند نے پورے ملک میں فیملی کونسلنگ سینٹرس قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ، تاکہ نکاح کے کچھ عرصے کے بعد افرادِ خاندان اور خاص طور پر میاں بیوی کے درمیان جو اختلافات سر ابھارنے لگتے ہیں انہیں ابتدا ہی میں ختم کیا جاسکے اور خوش گوار تعلقات بحال کیے جاسکیں۔

   اس کے لیے ہر ریاست میں ایسے سینٹرس قائم کیے گئے ہیں اور مزید کے قیام کا منصوبہ ہے۔ یہ کام جماعت کے شعبۂ اسلامی معاشرہ اور شعبۂ خواتین دونوں کے ذریعے انجام پارہا ہے۔   جو مرد حضرات اور خواتین کونسلنگ کے کام میں لگے ہوئے ہیں ان کی تربیت کے لیے وقتاً فوقتاً ورک شاپس منعقد کیے جاتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک دوروزہ آن لائن ورک شاپ راجستھان کے شعبۂ خواتین کی جانب سے منعقد ہوا ، جس میں ساٹھ (60)خواتین شریک ہوئیں _ کونسلنگ کے موضوع پر ماہرین نے اظہارِ خیال کیا اور شریک خواتین کے گروپس بناکر انہیں کونسلنگ کی تربیت دی گئی۔ اس ورک شاپ میں راقمِ سطور سے 'کونسلنگ کے کام میں مسلم پرسنل لا سے واقفیت کی اہمیت' پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے کہا گیا _ میری گفتگو       درج ذیل نکات پر مشتمل تھی :

    (1) کونسلنگ کے خواہش مندوں کی غالب اکثریت مسلمان ہوتی ہے ۔ وہ اسلامی شریعت کی روشنی میں اپنے اختلافات کا حل چاہتے ہیں _ ویسے بھی مسلم کونسلر کی ذمے داری ہے کہ وہ شریعت کی روشنی میں ان کی رہ نمائی کرے۔

(2) مسلمانوں کو ان کے عائلی قوانین پر عمل کی آزادی دی گئی ہے _ دوسری جانب یکساں سِوِل کوڈ کے نافذ کیے جانے کی بات کہی جاتی ہے اور ملک میں جو سِوِل قوانین نافذ ہیں ان پر عمل کا بھی حق دیا گیا ہے _ مسلمانوں کو حاصل شدہ آزادی سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دینی چاہیے کہ یہ ان کے دین و ایمان کا تقاضا ہے۔

(3) مسلم پرسنل لا مسلمانوں کے مکمل عائلی قوانین کا نام نہیں ہے ، بلکہ انگریزوں کے دور میں 1937 میں جو شریعت ایپلیکیشن ایکٹ منظور کیا گیا تھا اسی کو مسلم پرسنل لا کہا جاتا ہے ۔

(4) مسلم پرسنل لا کے تحت 10 موضوعات آتے ہیں : نکاح ، طلاق ، خلع ، مباراۃ ، فسخِ نکاح ، حضانت ، ہبہ ، وصیت ، وراثت ، وقف۔

(5) یوں تو کونسلر کو فنِ کونسلنگ ، علم نفسیات اور ملکی قوانین سے متعلق بنیادی اور ضروری معلومات ہونی چاہیے ، لیکن ان سے زیادہ ضروری ہے کہ اسے مسلم پرسنل لا سے متعلق معلومات ہو ۔

(6) اسلام کی عائلی تعلیمات سے متعلق مسلم سماج میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں _ انہیں دور کیا جانا ضروری ہے ۔ اس لیے کونسلر کو ان سے واقفیت ہونی چاہیے _ مثال کے طور پر : نکاح میں ذات برادری دیکھی جاتی ہے اور اسے 'کفو' سے جوڑ دیا گیا ہے ، حالاں کہ کفو کا تعلق ہم آہنگی سے ہے ، اس کا ذات برادری سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ 

نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنا نکاح والدین یا سرپرستوں کی مرضی سے کرنا چاہیے ، لیکن اس معاملے میں آخری اختیار لڑکوں لڑکیوں کا ہی ہوتا ہے ، کیوں کہ انہی کو آئندہ اپنی زندگی گزارنی ہوتی ہے ، اس لیے والدین کو اپنی مرضی بچوں پر نہیں تھوپنی چاہیے ۔

مہر شوہر کے ذمے بیوی کا قرض ہوتا ہے ۔ اگر تاخیر سے ادا ہو تو بھی اتنا ہی واجب الأداء ہے جتنا طے ہوا تھا _

طلاق کا اختیار شوہر کو دیا گیا ہے ۔ وہ طلاق زبانی دے ، یا تحریری ، تنہائی میں دے یا کسی کی موجودگی میں ، وہ نافذ ہوگی _ طلاق کے وقت بیوی کا موجود رہنا ضروری نہیں ہے ۔

خلع ایک طلاق بائن کے حکم میں ہے _ اس کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ، لیکن اس کے لیے عورت کی مرضی ضروری ہے ۔ خلع کی عدّت وہی ہے جو طلاق کی ہے _

(7) کونسلر کو صرف اسلام کے عائلی قوانین بتانے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ اخلاقی تعلیمات بھی پیش کرنی چاہییں ۔ قانون کا دائرہ بہت محدود ہے ، جب کہ اخلاقی تعلیمات بہت وسعت رکھتی ہیں۔

(8) کونسلر کو چاہیے کہ صرف اسلامی قوانین ہی نہ بتائے ، بلکہ ان کی حکمتیں اور افراد اور سماج پر پڑنے والے اثرات کا بھی تذکرہ کرے ۔ مثلاً کسی مسلمان کے لیے غیر مسلم سے نکاح حرام ہونے کی کیا حکمتیں ہیں؟ ایک سے زائد نکاح کا حق صرف مرد کو کیوں دیا گیا ہے؟ طلاق کے حق سے عورت کو کیوں محروم کیا گیا ہے؟ وراثت کی بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد کا نصف کیوں رکھا گیا ہے؟

(9) کونسلر کو چاہیے کہ وہ اختلافات کا شکار افرادِ خاندان کے سامنے ایثار اور قربانی کی تعلیمات پیش کرے _ اس سے ان کے دل نرم پڑیں گے اور اختلافات کی شدّت میں کمی آئے گی ۔

(10) کونسلنگ انفرادی کی جاسکتی ہے اور اجتماعی بھی _ اجتماعی کونسلنگ کی صورتوں میں کمیٹی میں مختلف صلاحیتوں کے افراد کو شامل کیا جائے ، مثلاً فنِ کونسلنگ کے پروفیشنلس ، ماہرینِ قانون ، عالم دین ، خواتین وغیرہ ۔