ہندوستان تمام مذاہب کا احترام کرنے والا ملک: ایک سروے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
ہندوستان تمام مذاہب کا احترام کرنے والا ملک: ایک سروے
ہندوستان تمام مذاہب کا احترام کرنے والا ملک: ایک سروے

 

 

آواز دی وائس / نئی دہلی

ہندوستان کے اندر مختلف قسم افراد بستے ہیں، جن کے دین و مذہب اور رہن سہن سبھی الگ الگ ہیں۔ تاہم یہاں بسنے والے تمام ہندوستانی شہری ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔

ایک مطالعہ میں اس بات کا پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے 84 فیصد شہری یہ مانتے ہیں کہ ہندوستانی ہونے کا مطلب تمام مذاہب کا احترام کرنا ہے۔

جب کہ 80 فیصد شہریوں کا ماننا ہے کہ یہ جذبہ دراصل ان کے ذاتی عقیدے کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ تمام مذاہب کے ہندوستانی شہری یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے عقیدے پر عمل کرنے کے لئے آزاد ہیں۔

یہ دراصل ایک ریسرچ کا نتیجہ ہے۔ یہ ریسرچ دراصل امریکن تھینک ٹینک پیو ریسرچ سینڑ(American Think tank Pew Research centre) کی جانب سے کیا گیا ہے۔

یہ ریسرچ چھ مذاہب یعنی ہندو ، مسلم ، سکھ ، جین ، بودھ اور عیسائی چھ مذاہب پر کیا گیا تھا۔ اس کے لیے 2999 ہندوستانی شہریوں سے جوابات طلب کئےگئے تھے۔

اس سے قبل مذرکورہ ریسرچ سینٹر ایک اندازہ لگایا تھا کہ 2050 تک ہندوستانی مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر 311 ملین ہو جائے گی ، جس کے نتیجے میں ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا بن ملک بن جائے گا۔

اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جہاں زیادہ تر ہندوستانی دوسرے مذاہب کا احترام کرنے پر یقین رکھتے ہیں ، وہیں وہ بین مذاہب شادیوں کے سخت مخالف ہیں۔

اس سلسلے میں تحقیق میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 80 فیصد مسلمانوں کا ماننا ہے کہ مسلم خواتین کو اپنے مذہب سے باہر شادی کرنے سے روکنا بہت ضروری ہے۔ وہیں 76 فیصد مسلمانوں کا ماننا ہے کہ مسلم مردوں کو بھی ایسا کرنے سے روکنا ضروری ہے۔

 جب کہ پیو ریسرچ کے مطابق 67 فیصد ہندو اپنی خواتین سے مذہب کے باہر شادی کرنے کے مخالف ہیں، جبکہ 65فیصد ہندووں کا خیال ہے کہ مردوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔

اس مطالعے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مسلمان مختلف قسم کے تنازعات کے حل کے لیے شریعت پر مبنی انفرادی عدالت کے حامی ہیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس خاندانی اور وراثت سے متعلق امور کو سرکاری طور پر تسلیم شدہ اسلامی عدالتوں میں حل کرنے کا اختیار ہے ، جسے ایک قاضی کی سربراہی میں کیا جاتا ہے، جسے دارالقضاء کہا جاتا ہے۔

تاہم ان کا فیصلہ قانونی طور پر پابند نہیں ہے۔

اس سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 74 فیصد مسلمان قاضی کی سربراہی میں تنازعات کا حل چاہتے ہیں۔

اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کی علیحدہ ریاستوں کے قیام سے ہندو مسلم تعلقات کو نقصان پہنچا ہے۔ جب کہ صرف 10 میں سے صرف تین مسلمان یہ کہتے ہیں کہ یہ اچھی بات تھی۔

 مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تمام مذاہب کے ہندوستانی شہری ذات پات کے نظام پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔