ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو 'آر ایس ایس' کی ضرورت ہے۔ مسلم دانشور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-09-2022
 ملک  کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو 'آر ایس ایس' کی ضرورت ہے۔ مسلم دانشور
ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو 'آر ایس ایس' کی ضرورت ہے۔ مسلم دانشور

 

 

آواز دی وائس :عاطر خان / منصور الدین فریدی

 ملک میں ماحول کو بدلنے کے لیے آپسی اختلافات اور غلط فہمیوں کو دور کرنا سب سے ضروری ہے، ہر کسی کو آگے آنا ہوگا، کیونکہ آج جو بھی ہورہا ہے وہ غلط فہمیوں اور رابطہ کی کمی کا نتیجہ ہے۔ جسے صرف اور صرف آپسی بات چیت سے دور کیا جاسکتا ہے-

کوئی بھی ہندوستانی مسلمانوں کی مکمل  نمائندگی کا دعوی کوئی نہیں کرسکتا ،اس لیے یہ کوششیں الگ الگ سطح پر الگ الگ لوگ کرسکتے ہیں۔ ہم میں جو خرابیاں یا کمیاں ہیں،اس کا اعتراف کرنا ہوگا ،انہیں دور کرنے پر کام کرنا ہوگا۔

یہی نہیں آر ایس ایس کو ضرورت ہو یا نہ ہو لیکن  مسلمانوں کو آر ایس ایس کی ضرورت ہے،کیونکہ ملک کی اکثریت کا ایک بڑا طبقہ تنظیم کے زیر اثر ہے

یہ کوشش ہے، ایک پہل ہے، لوگ أتے جائیں گے اور کارواں بنتا جانے گا۔

 ان تاثرات کا اظہار مسلم دانشوروں  نے کیا  جنہوں نے پچھلے دنوں آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی اور مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیوں اور شکایتوں پر بات کی ۔ کچھ سنا اور کچھ کہا ۔ ایک مثبت  پہل کا آغاز کیا ۔جس کی کسی نے حمایت کی اور کسی نےمخالفت کی۔ جو کہ ایک فطری عمل ہے۔لیکن الثریت اس بات پرایک رائے ہے کہ مسئلہ کا حل بات چیت ہی ہے۔ جسے ہر کوئی سیاسی ،سماجی اور ثقافتی سطح پر آزما سکتا ہے۔

 اس وفد میں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر اور لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ضمیر الدین شاہ،ممتاز صحافی اورآر ایل ڈی رہنما شاہد صدیقی اور ممتاز صنعت کارسعید شیروانی میں شامل تھے۔ جنہوں نے ایک سال قبل مسلمانوں کی تعلیم اور پسماندہ طبقے کی اقتصادی ترقی کے مشن کے لیے متحد ہوئے تھے اور ایک ایسی تنظیم  کے ساتھ سرگرم ہیں جو تعلیم خاص طور پر مدارس کو جدید تعلیم کے مرکزی دھارے میں لانے کے لیے کام کررہی ہے۔

ایک پہل ہے ، ایک شروعات ہے - نجیب جنگ 

 آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ صاحب نے کہا کہ دونوں فرقوں میں عدم اعتماد بے انتہا بڑھ چکا ہے - اس کا واحد علاج یہی ہے کہ ہم لوگ ایک ساتھ بیٹھیں-  اختلافات پر بات کریں اپنی رائے سامنے رکھیں اور جو اپنی کمزوریاں اور خامیاں ہیں ان کا اعتراف کریں-

نجیب جنگ صاحب نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہماری یہ مہم یا کوشش اسی سطح تک محدود رہے گی- کسی حکومت سے بات کی جائے گی -  ہر طبقے کے لیے لیے دروازے کھلے ہوئے ہیں جو چاہے وہ اس مہم سے جڑ سکتا ہے یہ ہمارے لیے حوصلہ بخش ہوگا- مرکز ہو یا ریاستی حکومتیں اور یا پھر ضلع انتظامیہ سب کی حمایت بھی اہم ہوگی-

دیکھیں ہمارا منصوبہ ہے کہ مہم صرف دلی تک ہی بات محدود نہیں رہے ، ہم ملک کے مختلف شہروں کا رخ کریں گے - لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر اس سوچ اور نظریے کو مزید طاقت بخشیں گے

میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ایک اچھی شروعات کی ہے- ایک اچھے کام کی اچھی نیت کے ساتھ شروعات ہوئی ہے- اگر ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ اس میں میں آپ بھی جڑیں تو ہم آپ کو بھی جوڑیں گے -صحافی جڑیں، سیاسی لیڈر جڑیں ، سماجی کارکن جڑیں،جس کو اس کام میں دلچسپی ہوگی وہ ہمارے ساتھ ہو سکتا ہے

اس سلسلے میں ہم مختلف لوگوں سے بات کر رہے ہیں جن میں علماء بھی شامل ہیں آپ یقین کریں ایک بھی ایسا نہیں جس نے بات چیت کے اس سلسلے کی مخالفت کی ہو- ہر کوئی چاہتا ہے کہ اختلافات ختم کیے جائے آئے

فکر مند شہریوں کی حیثیت سے ملاقات ۔شاہد صدیقی

ملک کے سینئر صحافی شاہد صدیقی نے اس ملاقات کے بارے میں کہا کہ یہ 22 اگست کو ہوئی تھی،یہ ملاقات بہت خوشگوار تھی۔ ہم نے تمال حالات پر تبادلہ خیال کیا۔ بھاگوت صاحب نے کہا کہ اسلام اور مسلمان ہمارے ہیں،ہندوستان سے دونوں کا گہرا رشتہ ہے۔ ان کے دل میں جو باتیں تھیں یا جو شکایتیں تھیں انہوں نے انتہائی ایمانداری کے ساتھ  بیان کی۔ ہم نے کچھ غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ۔

شاہد صدیقی نے مزید کہا کہ سیاست کی طرح سماجی یا ثقافتی طور پر مسلمانوں کا کوئی نمائندہ گروپ نہیں ہے،نہ کوئی اس کا دعوی کرسکتا ہے ۔ہم صرف فکر مند شہریوں کی حیثیت سے پہل کرنا چاہتے تھے۔ اس بات کا دعوی ہم بھی نہیں کرتے کہ ملک کے مسلمانوں کی نمائندگی کررہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات اس لیے تھی کہ ہم ایک ایسا راستہ تلاش کررہے ہیں جس سے ملک کے حالات بہتر ہوں جوکہ وقت کی ضرورت ہے ۔اس میں کسی کے جھکنے یا جیت ہار کا سوال نہیں ہے۔ بات چیت عزت و وقار کے ساتھ کی گئی اور مستقبل میں بھی ایسے ہی کی جائے گی۔ مسئلہ ملک کے ماحول میں گھلے زہر کو کم اور ختم کرنا ہے۔یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ملک کے مفاد میں بہتر ہوگا ۔نفرت اور زہر کو ختم کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔

شاہد صدیقی نے کہا کہ ہمارا مقصد غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے ،ہندو اور مسلمان اس ملک میں صدیوں سے ساتھ رہتے ہیں ،اختلافات کسی میں بھی ہوسکتے ہیں ،ایک گھر میں بھائیوں کے درمیان ہوجاتے ہیں ،لیکن اختلافات یا مخالفت کا مطلب دشمنی نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے ہمارا یہی پیغام ہے کہ جو بھی اختلافات ہوں انہیں آپس میں بات چیت کرکے دور کیا جائے ۔

شاہد صدیقی کہتے ہیں کہ  دراصل نوپور شرما واقعہ کے بعد  اس بات کی سخت ضرورت محسوس ہوئی تھی کہ ملک کے ماحول اور حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے ایک پہل کی جائے۔ اس کے بعد ہم لوگوں نے بھاگوت صاحب کو ایک خط لکھا تھا،ملاقات کے ساتھ اس بات کی خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے مداخلت کریں ۔ایک بات واضح کروں کہ اس ملاقات کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔

،ہم سب ایک ہیں۔ اس بات چیت کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ بھاگوت صاحب نے چار رکنی گروپ بنایا۔ جو مستقبل میں مسلمانوں کے معاملات پرمزید بات چیت کرے گا۔ بھاگوت نے کہا کہ وہ اس طرح کے مسائل پر رابطے میں رہنا چاہتے ہیں اور آر ایس ایس کے سربراہ نے انہیں کرشنا گوپال، اندریش کمار اور رام لال سے رابطے میں رہنے کا مشورہ دیا۔ جبکہ اندریش کمار آر ایس ایس کے مسلم راشٹریہ منچ کے 'مارگ درشک' ہیں، جس کی بنیاد دسمبر 2002 میں رکھی گئی تھی، 'سمپرک پرمکھ' رام لال سنگھ کے اس طرح کے عوامی رابطہ پروگراموں کی نگرانی کرتے ہیں۔

مسلمانوں کو آر ایس ایس کی ضرورت ہے ۔ سعید شیروانی

سعید شیروانی نے ’’آواز دی وائس ‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دیکھئے ہم آج تک آر ایس ایس کو جانتے ہی نہیں تھے، در اصل ہم دوسری جانب کھڑے تھے۔جبکہ اب ملک کا جو ماحول ہے اس میں قربت اور بات چیت وقت کی ضرورت ہے ، بلاشبہ آر ایس ایس بھی ملک کے ہندووں کی نمائندہ نہیں ہے لیکن کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی کو پہل تو کرنی ہی ہوگی۔ حقیقت یہ ہےکہ  یس ایس کو مسلمانوں سے رابطہ کی ضرورت نہیں  بلکہ آر ایس ایس مسلمانوں کو آر ایس ایس کی ضرورت ہے

سعید شیروانی صاحب نے کہا ہاں اس سے قبل بھی لوگ لوگ بھاگ والد صاحب سے ملتے رہے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ ملتے تھے وہ قوم کے بجائے اپنی باتیں کرتے تھے اب اب ایک نئی شروعات ہوئی ہے ہے اس سلسلے کو برقرار رکھنا ہو گا اپنی جانب سے کوششوں میں تیزی لانے ہوگی

انہوں نے کہا کہ اس وقت ضروری یہ ہے کہ  خود احتسابی کی جانے- جو خامیاں یا کمزوریاں مسلمانوں میں ہیں ان کا اعتراف کریں ۔ان کو سدھاریں ۔ایسا دو طرفہ عمل ہو۔ ہم سب میں کچھ نہ کچھ خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔انہیں تسلیم کرکے اور درست کرکے آگے بڑھنے کی گنجائش ہے۔

سعید شیروانی کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد سے ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی سیاسی یا سماجی تنظیم نہیں جو ملک کے نمائندگی کا دعوی کرے۔ ہم بھی ایسا کوئی دعوی نہیں کررہے ہیں ۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ مسلمانوں سے مختلف سطح پر بات کی جائے ۔ مقصد یہ ہے کہ جن معاملات پر اتفاق ہے ان پر آگے بڑھا جائے اور جن پر اختلاف ہے ،ان پربات چیت کا دروازہ کھلے۔ایسا ممکن ہی نہیں کہ اتنی بڑی آبادی میں کوئی اختلاف نہ ہو ۔ مگر انہیں حل کیا جا سکتا ہے

بھاگوت صاحب کے بیانات بہت مثبت رہے ،ہماری ملاقات کا مقصد یہی تھا کہ  غلط فہمیاں کیا ہیں اور انہیں کس طرح دور کیا جائے۔ ان کا رویہ بہت دوستانہ اور مدبرانہ تھا۔ انہیں بھی اتنی ہی تشویش ہے جتنی کہ ہمیں ہم لوگوں کی ۔

انہوں نے کہا کہ دیکھئے جس طرح ہم ملک کے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعوی نہیں کرسکتے اسی طرح آر ایس ایس بھی دعوی نہیں کرسکتی ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ موہن بھاگوت کے کئی بیانات اور پہل کو تنقید کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔

 سعید شیروانی کا کہنا ہے کہ اس پہل کے سبب کوئی خوش ہے تو کوئی ناراض۔مگر ایسا ہمیشہ ہوتا ہے۔آپ سب کو خوش یا مطمین نہیں کرسکتے ہیں ۔ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کا سب سے آخری راستہ ’مذاکرات‘ ہی ہوتے ہیں ۔ ہم نے ایک مثبت سوچ کے ساتھ پہل کی ہے،دل صاف ہے اور نیت بھی۔اس لیے جو ہوگا بہتر ہی ہوگا۔

 مجھے ایک غیرمسلم نے امریکہ سے میسیج کیا کہ ایک مثبت قدم ہے اوپر والا آپ کو کامیابی دے۔ اسی طرح علی گڑھ سے ایک اسی سالہ بزرگ نے شاباشی دی اور لکھا ہے کہ اللہ ااپ کو نیک کام کے لیے اجر دے۔

دل کھول کر بات کی:  ایس وائی قریشی

سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے' آواز ' کوبتایا کہ بھاگوت نے دل کھول کر بات کی۔ کوئی شکایت نہیں چھپائی ،دل کھول کر رکھ دیا ۔انہوں نے بتایا کہ  ہمیں بتایا کہ لوگ گائے کے ذبیحہ اور کافر جیسے الفاظ سے ناخوش ہیں۔

جواب میں ہم نے کہا کہ اس پر ہمیں بھی تشویش ہے۔ اگر کوئی گائے کے ذبیحہ میں ملوث ہے تو اسے قانون کے تحت سزا ملنی چاہیے۔ ساتھ ہی ’کافر‘ کے تعلق سے غلط فہمی دور کی ۔انہیں آگاہ کیا عربی میں کافر کا استعمال غیر مومنوں کے لیے کیا جاتا ہے اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو حل نہ ہو سکے۔

 ایس وائی قریشی کے مطابق بھاگوت صاحب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صبر سے سننے والے ہیں اور بہت سادگی پسند ہیں ۔

قریشی کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی بات رکھی ،بھاگوت صاحب کو بتایا کہ مسلمانوں کی کثرت سے توہین ایک مسئلہ ہے ، خاص طور پر ان کی آبادی کے بارے میں پروپیگنڈہ اور تعدد ازدواج کے رواج سے، کمیونٹی کے بارے میں منفی دقیانوسی تصورات کا پروپگنڈہ ایک منفی مہم ہے۔

بھاگوت کا کہنا تھا کہ ننانوے فیصد ہندوستانی مسلمان باہر سے نہیں آئے ہیں بلکہ یہاں مذہب تبدیل کیا ہے۔جبکہ  ملک کی ترقی کے لیے فرقہ وارانہ ہم آہنگی ضروری ہے اور ہم سب اس سے متفق ہیں۔

ایس وائی قریشی نے کہا کہ کوششیں اس سے پہلے بھی ہوئی ہیں  اور اب ہم نے بھی ایک کوشش کی ہے مگر ہم اس قسم کا دعوی نہیں کر رہے ہیں کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں- ہم ایک چھوٹا سا طبقہ ہیں اور ہماری کوشش ہوگی کہ ہر سطح پر اس سلسلے کا آغازہو، یہ کوشش ایک زنجیر کی شکل اختیار کرے تاکہ پورے ہندوستان میں اس سوچ اور نظریے کے ساتھ  ماحول کو بدلنے کی کوشش کامیاب ہو سکے