تمل ناڈو : امن کے لیے مل گئے گلے ہندو اور مسلمان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-08-2022
تمل ناڈو : امن کے لیے مل گئے گلے ہندو اور مسلمان
تمل ناڈو : امن کے لیے مل گئے گلے ہندو اور مسلمان

 

 

 تریچی (تامل ناڈو)

کئی دہائیوں کی تلخیوں اور تناؤ کے بعد، پرمبلور ضلع کے وی کلتھور گاؤں میں امن لوٹ آیا ہے کیونکہ ہندو اور مسلمان نے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر سیلیامان مندر کے تہوار کے موقع پر ہاتھ ملائے اور گلے مل کر پرانی دشمنی دور کرلی ۔ گزشتہ 30 سالوں سے، مسلم کمیونٹی نے مندر کے رتھ جلوس کی اپنے محلوں سے گزرنے کی مخالفت کی تھی، لیکن ضلع انتظامیہ اور پولیس کی امن کوششوں کی بدولت ہفتہ کی رات ہندو اور مسلم گاؤں والوں نے مشترکہ طور پر تین روزہ تہوار کا آغاز کیا۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ایس منی کی موجودگی میں رتھ گھومنے لگا تو دونوں مذاہب کے لوگوں نے گلے ملنے اور مصافحہ کا تبادلہ کیا۔

تمل ناڈو کے ضلع پیرمبلور کے وی کلتھور گاؤں میں اس خاص منظر نے سب کے دل جیت لیے ۔ یہ واقعہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی مثال بن گیا ۔ گاؤں کے مندر کے تہوار میں ہندو مسلم دہائیوں پرانی دشمنی کو بھلا کر ایک ساتھ شامل ہوئے۔

یہی نہیں بلکہ مندر کا جلوس ان سڑکوں اور مسلم علاقوں سے بھی گزرا جو 30 سال سے دونوں برادریوں کے درمیان تنازعہ کا باعث بنے ہوئے تھے۔

 مندر کے جلوس کے موقع پر پرانی تلخیوں کو بھلا کر دونوں برادریوں کے لوگ ایک دوسرے سے کھل کر ملے۔ وہاں موجود لوگوں نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا عزم بھی کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے سیلیامان مندر کے تہوار میں حصہ لیا۔

 ایک ایسے وقت میں جب دو برادریوں کے لوگ بات چیت پر تلواریں کھینچتے ہیں، تمل ناڈو کے ضلع پرمبلور کے وی کلتھور گاؤں کے لوگوں نے تمام پرانے تنازعات پر مٹی ڈال کر ایک مثال قائم کی ہے۔

گزشتہ 30 سالوں سے، مسلمان مبینہ طور پر مندر کے رتھ جلوس کے اس کی مرکزی سڑک سے گزرنے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ بعد میں یہ مسئلہ دونوں برادریوں کے درمیان جھگڑے کی وجہ بن گیا۔

awaz

گاوں میں ہندو ۔ مسلمان اتحاد کےلیے ایک میٹنگ کا منظر


 لیکن اب یہ مسئلہ دور ہو گیا ہے۔ ہفتہ کو دونوں برادریوں کے گاؤں والوں نے پولیس کی موجودگی میں تنازعہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد تین روزہ فیسٹیول کا شاندار جشن منایا گیا۔ دونوں مذاہب کے لوگوں نے ماضی کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئی شروعات کی۔ ایک دوسرے سے مل کر تمام پرانی رقابتیں بھی بھلا دی گئیں۔

 کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان 1912 سے دشمنی چلی آ رہی تھی۔ مذہبی جلوس کے بارے میں بہت مارپیٹ ہوئی تھی۔ یہ تہوار تین دن تک جاری رہتا ہے۔

جلوس نے پورے گاؤں کا احاطہ کیا، بشمول مسلم اکثریتی پیریاکادائی اور پالیوسال کی گلیوں میں سے گزرا۔ 1990 میں جھڑپوں کے بعد، مدراس ہائی کورٹ کی ہدایت پر پولیس کی حفاظت میں میلے کا انعقاد شروع ہوا۔ اس کے بعد سے یہ جلوس کسی مسلم اکثریتی علاقے سے نہیں گزر رہا تھا۔

 دریں اثنا، مقامی جماعت نے سندھانکڈو رتھ جلوس کے اداکاروں اور ہندو گاؤں والوں کو رمضان کے دوران مقامی درگاہ پر افطار پارٹی میں مدعو کیا۔ پروگرام میں ہندو گاؤں والوں نے بھی شرکت کی۔ بدلے میں مسلمانوں کو سیلیامان مندر کے تہوار میں مدعو کیا گیا۔

 وی کلتھور جماعت کے سکریٹری جعفر علی نے کہاکہ "ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں امن لوٹ آئے، اس لیے ہم نے ماضی کو نظر انداز کیا اور مندر کے تہوار کے ہموار انعقاد کے لیے تعاون بڑھایا۔"

 جلوس کا ہمارا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ راماسامی مندر فیسٹیول آرگنائزنگ کمیٹی کے ایک رکن ادیار نے کہاکہ مدراس ہائی کورٹ اور ضلع انتظامیہ کا شکریہ، انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تصفیہ کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

 گاؤں والے اس معاہدے سے بہت خوش ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آنے والے تہواروں میں مذہبی ہم آہنگی لوٹ آئے۔ ضلع کلکٹر پی سری وینکاڈا پریا نے کہا، ہم نے ضلع پولیس کے ساتھ تنازعہ کو حل کرنے کے لیے سخت محنت کی۔ دریں اثنا، ہم نے گاؤں والوں کی بنیادی سہولیات کی ضروریات کو پورا کرکے ان کا اعتماد جیت لیا ہے۔

ہفتہ کے روز، ہندوؤں نے گاؤں کی مسجد کا دورہ کیا اور مسلمانوں کو اپنے مندر کے تہوار میں مدعو کیا۔ مسلمانوں نے قبول کیا، اور دونوں جماعتوں نے اس رات مندر کے رتھ کو ایک ساتھ کھینچ کر تہوار کا آغاز کیا۔ کلکٹر اور ایس پی بھی 100 سے زیادہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ موجود تھے۔ اتحاد اور ہم آہنگی تھی۔ اب مستقبل میں بھی میلہ اتحاد سے منایا جائے گا۔