بھاگلپور: بنکروں پر کورونا سے پڑی دہری مار

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 18-11-2021
 بھاگلپور: بنکروں پر کورونا سے پڑی دہری مار
بھاگلپور: بنکروں پر کورونا سے پڑی دہری مار

 

 

راجیو رنجن / بھاگل پور

 زرعی شعبے کے بعد ٹیکسٹائل کو ہندوستانی معیشت کا دوسرا سب سے بڑا آمدنی پیدا کرنے والا شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن کورونا کے دور میں ملک گیر لاک ڈاؤن کے بعد نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت خراب ہوئی بلکہ  اس شعبہ میں کام کرنے والے بنکروں کی حالت بھی ابتر ہوگئی۔اس کے علاوہ غیر منظم طریقے سے گھر گھر کام کرنے والے بنکروں کی حالت مزید خراب ہوتی چلی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی بنکروں کی حالت بہتر نہیں ہو سکی ہے۔

جہاں کورونا سےبچاؤکے لیے بنکروں کے ہاتھوں سے روزگار چھین لیا گیا ہے وہیں کاروبار میں سست روی کی وجہ سے ان لوگوں کی آمدنی بھی بہت کم ہو گئی۔

 ریاست بہار کا ضلع بھاگل پور ملک میں سلک سٹی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بھاگل پورشہرکے'چمپانگر' میں ہینڈ لوم اور پاورلوم میں کام کرنے والے بنکر آباد ہیں، جن میں سے زیادہ تر اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں۔

گو کہ حکومت ملکی سطح پر اور ویب پورٹل کے ذریعے نمائشیں منعقد کرکے بونکروں کو آمدنی کے بحران سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے تاہم پچھلے دو سالوں سے یہ کوشش بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

اشرف الہدیٰ حکومت ہند کے نمائندے ہیں،وہ بنکروں کواپنا سامان فروخت کرنےمیں مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھاگل پور ویور سروس سینٹر(bhagalpur weavers service center) کے تحت 10 کلسٹرپورےشہر میں قائم ہیں۔ جگدیش پور، ناتھ نگر، دریا پور، میرن چک، گریڈیہ، کھڑیک، پیرپینتی، لودی پور، بونسی اور دھوریا میں سنٹر قائم کئے گئے ہیں۔

awazurdu

اچھے دنوں کا انتظار 


ان کلسٹرز کے تحت تقریباً ساڑھے چار ہزاربنکرجڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت زیادہ تر بنکروں کے پاس کام نہیں ہے، جب کہ کوروناسے پہلے شہر میں تکنیکی توسیع، مدرا لون، سولرلائٹ کی سہولت کے ساتھ ڈیزائن کے کام کو بڑھایا جا رہا تھا، لیکن کورونا کے دور میں لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد آرڈر ملنے میں کمی آئی ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہواکہ حکومت ہند نےجن لوگوں کوبنکروں کی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے نمائندے منتخب کیے تھے، وہ اپنے کام میں توسیع نہ ہونے کی وجہ سے بیکار ہو گئے ہیں۔

چمپا نگر کے بنکر وسارل کا کہنا ہے کہ 90 کی دہائی میں چمپا نگر میں بُنکروں کے پاس بہت کام تھے، اس زمانے میں کوریا ریشم کا دھاگہ نیپال سے آیا کرتا تھا، جس کی وجہ سے یہاں کاٹن اور سلک کی ساڑیاں، تولیہ، لنگی اورلڑکی کےاستعمال کئےجانے والےدوپٹے بڑے پیمانے پر بنائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ کرتہ اور قمیض کا کپڑا تیارکیا جاتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ یہاں کا بازارمدھم ہو نے لگا۔

awazurdu

زندگی کے رنگ جو کورونا کے دور میں اڑ گئے 


ایک مقامی بنکر نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بنکروں کو جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کا خمیازہ بھگتنا پڑا، اس کے بعد کورونا نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔

وراثتی طورپربنکروں کا کام کرنےوالےمظہرانصاری اورعطاالرحمان کا کہنا ہےکہ وہ بچپن سےہی کپڑا بُن رہے ہیں۔ کورونا کے پہلے کام کےعوض یومیہ تین سے چارسو روپے کما لیتےتھےتاہم کوروناایام کے بعد سو روپے بھی کمانا مشکل ہو گیا ہے۔

انہوں نےکہا کہ دھاگےکی قیمت دن بدن بڑھ رہی ہےجس کی وجہ سے کام نہیں مل پا رہا ہے۔ مظہرکاکہنا ہے کہ مہاجن اسے بُنائی کے لیے دھاگہ دیتے ہیں، جواپنی رولنگ مشین کی مدد سے دھاگے کو ایک ڈوری میں ڈالتے ہیں تاکہ پاورلوم پرلگایا جائے۔اس کے بدلے میں مہاجن اسے اجرت دیتے ہیں۔

آزاد کا کہنا ہے کہ سوتی دھاگہ جو 800 روپے کا بنڈل (450 گرام) ملتا تھا، اب اس کی قیمت 1400 سے 1600 روپے تک ہوگئی ہے۔ جس دھاگےکی مانگ بنکر کرتے ہیں، مہاجن اگلے دن اس دھاگےکی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔

انہوں نے طنزکرتے ہوئے کہا کہ کل ڈھائی سو روپئے کلو دھاگہ تھا، آج ساڑھے تین سو روپے کا مل رہا ہے۔

پاور لوم چلانے والے مورا کا کہنا ہے کہ دھاگے کی قیمت بڑھنے سے پاور لوم کا کام ایک طرح سے رکا ہوا ہے، اب ایسی صورت حال میں جو مزدور ساڑی بُننے پر انہیں 60 روپیہ یومہ ملا کرتا تھا، اب وہ محض 20 روپئے یومیہ پر کام کرنے کےلیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کام نہیں مل رہا ہے۔ اس علاقے میں جو مزدور دن میں ڈھائی سو روپے کماتے تھے آج ان کے لیے سو روپہ کمانا مشکل ہو رہا ہے۔

اس وجہ سےان بنکروں کی روز مرہ کے لیے گزر اوقات کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ایک بنکرنےبتایا کہ بچوں کو پڑھانے کے لیے ماہانہ چار سو روپے فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نےمزید کہا کہ ہم نے مدرسے میں مفت پڑھائی کی تھی، اس لیےابھی بنکر ہیں، تاہم ہم اپنے بچوں کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ کمپیوٹروغیرہ بھی چلانا سکھا رہے ہیں،تاکہ ان بچوں کا مستقبل محفوظ ہوجائے۔

بنکرریحان ان دنوں پاورلوم پر سلب ساڑیاں بنانے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اچھےمعیارکےسوتی دھاگے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ سلب کاٹن ساڑی جس کی مارکیٹ میں قیمت آٹھ سو سے ہزار روپے تک ہے، پاورلوم پر ساڑھے تین سو روپے میں تیار ہو کر فروخت ہوتی تھی، آج اس کی قیمت کم ہوکرمحض دو سو روپے ہوگئی ہے۔ریحان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد مارکیٹ میں تیزی آئی ہے تاہم دھاگے کی قیمت میں اضافے سے بنکر بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

awazurdu

سنسان اور ویران پاور لوم 


ریحان کا کہنا ہے کہ کورونا کا خوف ختم کرنا ضروری ہے۔امید ہے کہ اب بازار میں تیزی آئے گی۔ تیسری لہر کے بارے میں پوچھے جانے پر ریحان کا کہنا ہے کہ اللہ کورونا سے نجات دلائے۔ تیسری لہر کی بات ہوئی تو انڈسٹری بھی تباہ ہو جائے گی۔

بنکروں کو تربیت دینے کا کام کرنے والی سرکاری تنظیم ویور سروس سینٹر سے وابستہ بُنکروں نے بتایا کہ بُنکر مہنگے داموں میں دھاگے خرید کر کپڑے تیار کر سکتے ہیں، لیکن بازار میں بیٹھے مہاجن پرانی قیمت پرہی کپڑے خریدنا چاہتےہیں، جو کہ بنکروں کے لیے ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے کپڑوں پرجی ایس ٹی نہیں تھا، اب حکومت نےپانچ فیصد جی ایس ٹی لگا دیا ہے۔اب ایسی حالت میں پرانے نرخ نامے پر کپڑے بیچیں جائیں توپھر وہ اپنا گزر اوقات کیسے کریں گے۔