لاوارث لاشوں کی بے حرمتی نہیں ہونے دوں گا: شریف چاچا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-02-2021
بیٹے کی موت نے شریف چاچا  کی زندگی بدل دی
بیٹے کی موت نے شریف چاچا کی زندگی بدل دی

 

انو راے/ فیض آباد

اکثر جب ہم اپنے کسی عزیز کو کھو دیتے ہیں تو زندگی سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ ہم کبھی تلخی اور کبھی افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن پھر کچھ لوگ 'محمد شریف' بھی بن جاتے ہیں۔ وہ 'محمد شریف' جس کے باطن میں ودیت شدہ انسانیت بتدریج اپنے کمال کو پہنچنے لگے اور اسے انسان کی صورت میں فرشتہ صفت ہونے کی شناخت سے ممیز کر دے

اوپر لگی تصویر دیکھ کر آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ اس عام سے دکھنے والے پنکچر بنانے والے انسان میں ایسا کیا خاص ہے؟ عام سے نظر آنے والے محمد شریف واقعتاً خاص ہیں- میڈیا رپورٹس کے مطابق محمد شریف ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے 25000 سے زیادہ لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کی ہیں

ویسےتعداد کم یا زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ خود محمد شریف (اور محلے والوں کے لئے شریف چاچا) بھی یاد نہیں رکھتے ہیں کہ اصل میں یہ تعداد کتنی ہے- ان کا بس یہی موقف ہے کہ اس دنیا کے ہر فرد کی دنیا سے رخصتی عزت کے ساتھ ہونی چاہیے- اگر مرنے والا شخص مسلمان ہے، تو آخری دعا پڑھ کر اسے سپرد خاک کیا جائے اور اگر وہ ہندو ہے تو شمشان گھاٹ میں مکھاگنی دے کر اس کی آخری رسومات پوری کی جائیں

شریف چاچا کا کہنا ہے کہ وہ ان لاوارث لاشوں کو دفنانے یا جلانے کے لئے کسی سے کوئی مالی مدد نہیں لیتے ہیں۔ دراصل یہ طریقہ ہے ان کے غم کو دور کرنے کا- یہی ان کے لئے راحت کا سامان ہے

درحقیقت اترپردیش کے فیض آباد کے شریف چچا نے اپنے ایک 27 سالہ بیٹے 'ریاض' کو ایک حادثے میں کھودیا تھا ۔ شریف چاچا کی ضعیف آنکھوں میں اب اپنے بیٹے ریاض کے لئے ایک دھندھلی سی رمق باقی ہے - انکا بیٹا جو طبی نمائندے کی نوکری کے لئے شہر سے باہر گیا اورواپس نہیں آیا - ایک مہینے کے بعد ریاض کے لاپتہ ہونے کی خبر آئی اور پھر مہینوں کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش ملی

ایک باپ کے لئے بیٹے کو کھونے کا درد دنیا کے ہر درد سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ محمد شریف زندگی سے مایوس ہونے لگے تھے- پھر ایک دن انہوں نے دیکھا کہ پولیس کسی لاوارث لاش کو ندی میں پھینک رہی تھی۔ انہیں شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اگر ان کے بیٹے کی لاش نہ ملتی تو وہ بھی اسی طرح کسی ندی میں پھینک دی جاتی- محمد شریف نے عزم مصمم کیا کہ کسی کے بیٹے یا بیٹی کی لاش کی اس طرح بے حرمتی نہیں ہوگی اور ہر ایک کو اپنے حصہ کی مٹی نصیب ہوگی

پھرانہوں نے اس کے بارے میں پولیس سے بات کی اور درخوست کی کہ وہ خود ان لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی ریلوے پٹری پر کوئی لاش ملی ہو یا کوئی سڑک حادثے میں ہلاک ہو گیا ہو اور کوئی تین دنوں تک اسے ڈھونڈنے یا دعویٰ کرنے نہ آے تو اس کی آخری رسومات ادا کرنے کی ذمہ داری ان کی ہوگی

اس حادثے کو گزرے ہوئے بیس سال ہو چکے ہیں- اب تک وہ 25000 سے زائد لاشوں کی آخری رسومات ادا کے چکے ہیں- ابتدا میں تو ان کے اہل خانہ اور رشتے دار اس بات کے خلاف تھے - کچھ لوگوں نے انھیں پاگل کہنا شروع کر دیا تھا- لیکن محمد شریف چٹان کی طرح اپنے ارادے پر کار بند ہیں