مصباح : یوکرین سے انخلا کے دوران 48 طلبا کا بنا رہبر

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 10-03-2022
مصباح : یوکرین سے  انخلا کے دوران 48 طلبا کا بنا رہبر
مصباح : یوکرین سے انخلا کے دوران 48 طلبا کا بنا رہبر

 


آوازدی وائس،نئی دہلی 

روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں جہاں لاکھوں یوکرینی باشندوں نے مختلف ممالک میں ہجرت کی وہیں دنیا بھر کے ہزاروں طلبا نے بھی اپنے اپنے وطن کا رخ کرنے کے لیے پاپڑ بیلے۔ جن میں  تقریباً 20 ہزار ہندوستانی طلباء بھی شامل تھے۔ جو یوکرین کے مختلف شہروں میں پھنس گئے تھے، وہ تمام طلبا خطرناک سفر طے کرتے ہوئے وطن واپس لوٹے ہیں۔ اس انسانی بحران کے دوران مختلف کہانیاں سامنے آئی ہیں ۔کسی نے کسی کو بچایا تو کسی نے کسی کو سہارا دیا۔ کسی نے مالی مدد کی تو کسی نے کھانے کا انتظام کیا۔ کوئی محافظ بنا تو کوئی مسیحا۔ 

جہاں اس پرخطر سفر کے دوران طلبا کو تلخ تجربات پیش آئے؛ وہیں اس سفر میں طلبا کا سابقہ ایسے لوگوں سے بھی ہوا، جنہوں نے انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کی جانیں بچائی ہیں۔ ان میں سے ایک مصباح الدین  بھی ہیں؛جویوکرین میں پھنسے طلبا کے لیے مسیحا ثابت ہوئے۔

 ہفتہ کو بنگال کے طلباء کا ایک گروپ جنگ زدہ علاقہ کیف سے کولکتہ پہنچا ہے۔ جب ان میڈیکل طلباء سے پوچھا گیا کہ اس سفر کے دوران ان پرسب سے بڑا قرض کس کا ہے توانہوں نے مصباح الدین کا نام لیتے ہوئےیک زبان ہوکرنعرہ بلند کیا: محمد مصباح الدین زندہ باد۔

واضح رہے کہ مصباح الدین کا تعلق ریاست مغربی بنگال کے ضلع بیر بھوم سے ہیں۔ وہ یوکرین سے واپس آنے والے 48 طلباء کے گروپ کی قیادت کر رہے تھے۔

محمد مصباح الدین نے ہنگری کی سرحد تک جانے کا منصوبہ بنایا جو ان کی قیام گاہ سے تقریباً 900 کلومیٹر دورواقع تھی، یہ کسی سنگین خطرے سے کم نہیں تھا۔ تاہم محمد مصباح الدین نے اس مشکل سفر کو آسان بنانے کے لیے اپنے ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ کر دیے۔ کیف میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا مثلاً شولا، نادیہ، راجہ منڈل، رضی بل نے بتایا کہ وہ محمد مصباح الدین کے کردار کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ انہوں نے ہم تمام طلبا کواپنی جان کو جوکھم میں ڈالا تھا۔ رضی بل نے خاص طور پر زور دے کر کہا کہ میں محمد مصباح الدین اور راجہ منڈل کی شکر گزار ہوں۔ ان کی مدد کی بغیرکیف سے نکل پانا میرے لیے مشکل تھا۔

ایک موقع پرمحمد مصباح الدین نے کہا کہ میرے پاس اکیلےجانےکااختیارتھا،لیکن میرا ایسا کرنا غلط ہوتا، کیوں کہ میں اپنے دوستوں کو پریشانی میں مبتلا چھوڑ کر وہاں سے نہیں نکل سکتا تھا؛ کیوں کہ ان میں سے کچھ کے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔ لہٰذا میں نے اپنے دوستوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہیں محمد مصباح الدین سے ملاقات کے بعد ان کے دوست راجہ منڈل نے ایک واٹس ایپ گروپ بنگالی ایویکوشن(Bengali Evacuation)بنایا ہے۔ اس نے یونیورسٹی کے تمام بنگالی طلباء کو اس گروپ میں شامل کیا تاکہ وہ گھر جانے کے لیے اس ذریعہ سے جڑے رہیں۔

راجہ منڈل نے کہا کہ ہم نے فوری طور پر کیف سے لویب (Lviv) تک تمام 48 کے لیے ٹرین ٹکٹ آن لائن خریدے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آگے کیا کرنا ہے لیکن محمد مصباح الدین نے فیصلہ کیا کہ جو بھی کریں گے سب مل کر کریں گے۔ خیال رہے کہ 48 طالب علموں کا یہ گروپ28 فروری2022 کی صبح تک پولینڈ/ہنگری کی سرحد تک پہنچنا چاہتا تھا کہ اس کےبعد وہ لیویب کے سفر پر روانہ ہوتے۔

awazthevoice

 یوکرین میں پھنسے طلبا کا گروپ

راجہ منڈل نے بتایا کہ مگر28 فروری 2022 کی صبح کے جب وہ سرحد کے قریب پہنچے تو فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہمیں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر قریب ترین ریلوے اسٹیشن تک پہنچنے کے لیے تقریباً 6 کلومیٹر پیدل چلنا پڑا۔ اس کی قیادت محمد مصباح الدین کر رہے تھے۔

 یوکرین کی پہلی ترجیح

 گروپ کے کچھ ارکان کا کہنا تھا کہ یہ سفر مسائل سے بھرا ہوا تھا۔ یہاں ٹرین میں سفرکرنا بھی مشکل تھا، کیوں کہ یوکرینی شہری کو پہلی ترجیح دی جا رہی تھی۔ چونکہ ٹرین پولینڈ کی سرحد سے ٹکرا چکی تھی اور وہاں یوکرین کے شہریوں کی لمبی قطارلگی ہوئی تھیں، اس لیےٹرین سے سفرکرنا ان کے لیے مشکل ہوگیا۔ 

محمد مصباح الدین نے بتایا کہ لہٰذا ہم نے سردی میں لویب ریلوے اسٹیشن میں رات گزاری۔ پھر ہمیں ایک بس ملی لیکن اس نے فی طالب علم  50  ڈالرمانگے۔ مگر گفت و شنید کے بعد ڈرائیور 2000 ڈالر میں 48 طلبا کو اپنی بس میں بٹھا کر سفر پر لے جانے کے لیے آمادہ ہوگیا۔

 محمد مصباح الدین نے کہا کہ زیادہ تر طلبہ کے کھاتوں میں پیسے تھے لیکن بس ڈرائیور صرف ڈالر ہی لے رہا تھا۔ میرے پاس ڈالر تھے جو میں نے سب کے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے خرچ کیے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ سب مجھے واپس کرنے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی سب کو بحفاظت گھر پہنچنا زیادہ ضروری تھا۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس وقت میرے پاس پیسے تھے۔

 بارہ گھنٹے کا انتظار اور وطن واپسی

محمد مصباح الدین بتاتے ہیں کہ امیگریشن کاؤنٹر پر قطار بہت لمبی تھی۔ ہمیں رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے لیےیکم اور دو مارچ کے درمیان تقریباً 12 گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔آخر کار ہمیں ہندوستانی سفارت خانے سے کچھ اہلکار مل گئے۔ دورانِ سفر مصباح الدین بنگال کے ایک سماجی کارکن صادق الاسلام سے رابطے میں تھے، جنہوں نے کہا کہ اس گروپ کی ہنگری سرحد پرآمد کے بارے میں سفارت خانہ کو پہلے سے ہی آگاہ کر دیا تھا۔

محمد مصباح الدین نے بتایا کہ ’’ہندوستانی اہلکار ہمیں بوڈاپیسٹ لے گئے اور ہمیں ایک اچھی جگہ پر بٹھایا۔ اتنے لمبے سفر کے بعد ہمیں راحت ملی تھی۔ ہمارے گروپ کو آپریشن گنگا کے تحت اڑان بھرنے کے لیے 4 مارچ2022 تک بوڈاپیسٹ میں انتظار کرنا پڑا۔ اس کے بعد یہ گروپ 5 مارچ2022 کو کولکاتہ ایئرپورٹ پرپہنچا۔ خیال رہے کہ اس دوران یوکرین سے نکلنے والے طلبا یہ گروپ کیف یونیورسٹی میں پھنسے ہوئے دیگر تقریباً100دیگر ہندوستانی طلبا کی رہنمائی کرتا رہا تاکہ انہیں وہاں سے نکلنے میں مدد ملے۔

صادق الاسلام نے اس بحران میں طلباء کی مدد کرنے پر مصباح الدین اور راجہ منڈل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مصباح الدین اور راجہ منڈل نے اپنے عمل سے ثابت کردکھایا کہ ایک ذمہ دار شہری کیسا ہونا چاہیے۔