حکومت کی یقین دہانی کے بعد انخلا میں تیزی امید

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 28-02-2022
حکومت کی یقین دہانی کے بعد انخلا میں  تیزی امید
حکومت کی یقین دہانی کے بعد انخلا میں تیزی امید

 

 

صابر حسین/نئی دہلی

پیر کے روز وزیر اعظم نریندر مودی نے یوکرین میں روس کی جاری فوجی کارروائیوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہندوستانی شہریوں کے انخلاء کو مربوط کرنے کے لیے چار وزراء کو یوکرین کے پڑوسی ممالک میں تعینات کیا ہے۔ اس طرح یوکرین سے انخلاء کو تیز کرنے کی حکومت کی کوششوں نے ہندوستانی شہریوں کی امیدیں بڑھا دی ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر طلباء ابھی بھی اس ملک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ شہری ہوابازی کے وزیر جیوتی رادتیہ سندھیا رومانیہ اور مالڈووا میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کے انخلاء کے کاموں کی نگرانی کریں گے، جب کہ وزیر قانون کرن رجیجو سلواکیہ کا دورہ کریں گے۔

وہیں پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری ہنگری میں کارروائیوں پر نظر رکھیں گے اور سڑک ٹرانسپورٹ کی وزارت میں وزیر مملکت جنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ پولینڈ میں انخلاء کا انتظام سنبھالیں گے۔ قومی راجدھانی دہلی میں تعلیم کے مشیر روی کول نے حکومت کے تازہ اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے انخلاء کے عمل کو مربوط کرنے کے لیے چار وزراء کو تعینات کیا ہے۔ ہندوستانی شہریوں کو جلد از جلد واپس لائے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انخلاء کا عمل مشکل ہے کیونکہ جنگ کی وجہ سے ایک جگہ سے سے دوسری جگہ کا سفر بے حد خطرناک ہے۔

مثال کے طور پر اگر طلباء کو مشرقی یوکرین کے خارکیف سے ملک کے مغربی حصے تک جانا پڑتا ہے تو یوکرین کے مشرق میں لڑائی کی وجہ سے خطرہ ہے۔جنگی علاقے سے 1000 کلومیٹر کا سفر محفوظ نہیں ہے۔ کھرکیو میں کچھ ہندوستانی طلباء بنکروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کھانے پینے کی بھی کمی ہے۔ جب کہ کیف میں ہندوستانی سفارت خانے نے پیر کی صبح ایک ایڈوائزری میں طلباء سے کہا کہ وہ مغربی یوکرین کے لیے ٹرینوں میں سوار ہونے کے لیے ریلوے اسٹیشن کی طرف جائیں۔

خیال رہے کہ بہت سے طلباء نے شکایت کی کہ ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی میں اسٹیشن تک پہنچنا مشکل ہے۔ اگرچہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سفارت خانہ خود مدد نہیں کر سکتا۔ سیکورٹی کا خطرہ ہے اور حکومت ہر جگہ موجود نہیں ہو سکتی اور سب کچھ نہیں کر سکتی۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افراتفری کو ختم کرنے کے لیے سرحدوں پر بہتر تال میل کی ضرورت ہے، خاص طور پر پولینڈ کی سرحد پر۔ یہاں ہندوستانیوں کے لیے علیحدہ کاؤنٹر کھولا جانا چاہئے۔اس کے علاوہ صحیح ہم آہنگی اور معلومات کے فرق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

ان سرحدوں پر ہندوستانیوں کے لیے علیحدہ کاؤنٹر کھولے جانے چاہئیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ سرد موسم میں زیادہ دیر تک انتظار کرنے کے بجائے مناسب وقت میں سرحد پار کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پھنسے ہوئے طلباء نےانہیں بتایا کہ پولینڈ کی سرحد پر کوئی ہندوستانی اہلکار موجود نہیں ہیں اور وارسا میں ہندوستانی سفارت خانے نے ایڈوائزری میں جن نمبروں کا ذکر کیا ہے وہ کام نہیں کررہے ہیں۔

پولینڈ کی سرحد لیوکے قریب ہے جہاں بہت سے ہندوستانی طلباء زیر تعلیم تھے۔ روی کول نے نشاندہی کی کہ رومانیہ کی سرحد کے ذریعے انخلاء زیادہ موثر رہا ہے لیکن حیرت ہے کہ جب ہندوستانی ہنگری، رومانیہ، پولینڈ اور سلواکیہ میں جا رہے تھے تو صرف بخارسٹ اور بوڈاپیسٹ کو انخلاء کی پروازوں کے لیے اسٹیجنگ پوائنٹ کے طور پر کیوں نامزد کیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ مالڈووا میں بھی داخل ہو چکے ہیں۔ کول نے کہا کہ حکومت نے جو کرنا تھا وہ کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اب طلباء اور ان کے والدین کی ذہنی اذیت جلد ختم ہو جائے گی ۔