ہندتوا کوئی مذہبی تہذیب نہیں بلکہ ہندوستانیت کی علامت ہے ۔پٹھان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-09-2021
صاحب کتاب ڈاکٹر ایس این پٹھان (دائیں) اور ’مترجم ’محمد اطہرحیات( بائیں)
صاحب کتاب ڈاکٹر ایس این پٹھان (دائیں) اور ’مترجم ’محمد اطہرحیات( بائیں)

 

 

 منصور الدین فریدی: آواز دی وائس

ہندتوا یہ کوئی ہندو تہذیب نہیں،یہ کوئی مذہبی تہذیب نہیں بلکہ ایک مشترکہ تہذیب ہے ۔الگ الگ مذاہب کے ماننے والے اس سرزمین پر زندگی گزارتے ہیں،الگ الگ ذات کے لوگ آباد ہیں ،ان میں جو یکسانیت ہوتی ہیں وہی مشترکہ تہذیب بن جاتی ہے۔ جس کو ہم ہندتوا کہتے ہیں۔ یہ ایک خوبصورت تصویر ہے جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی عکاسی کرتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار ناگپور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ایس این پٹھان نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کیا ۔جن کی کتاب ’’۔ ہند توا کا مطلب بھارتیہ یک جہتی۔ مسلم منافرت نہیں۔۔‘‘کا اجرا کل رات ممبئی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کیا تھا۔

ڈاکٹر پٹھان نے کہا کہ یہ ہندوستان کی خوبصورتی ہے کہ اس نے ہر مذہب کو پروان پانے کا موقع دیا ہے۔بات اسلام کی ہو یا پھر عیسائیت کی۔ ہر مذہب کو اس کی سرزمین نے سماں لیا بلکہ محفوظ رکھا۔

انہوں نے اپنی کتاب کے بارے میں کہا کہ اس کا مقصد ان تجربات کو سامنے لانا ہے جن میں ملک کی یک جہتی کی خوبصورتی جھلکتی ہے۔ جو آج کے دور میں سب سے اہم ہے ۔ہم کو اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ملک میں ہر مذہب کو تحفظ ملا ہے۔ ہر ذات کے لوگ آباد ہیں ۔

ڈاکٹر پٹھان کہتے ہیں کہ ہمیں آپس میں پیار محبت سے رہنا ہوگا اور کسی پر غیر ضروری شک اور بے اعتمادی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے ۔

ہم بڑے دل والے ہیں 

ڈاکٹر پٹھان کا کہنا ہے کہ  پہلے آر ایس ایس کے بارے میں ان کی سوچ کچھ اور ہی تھی لیکن جب سے سدرشن جی سے ملاقات ہوئی تو سب غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔ اب موہن بھاگوت جی کی باتیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ ملک کی مشترکہ تہذیب کے حامی ہیں۔انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ مسلمان جس کو چاہیں ووٹ دیں یہ ان کا حق اور پسند ہے۔ ہمارے لئے حکومت نہیں ملک اہم ہے ،جس کے لئے اتحاد اور قومی یک جہتی بہت ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک دنیا میں ’وشو گرو‘ بننے کا دعویدار ہے کیونکہ ہندوستان میں بے انتہا گیان ہے۔ 

ہندو مسلمان اتحاد گاؤوں سے پروان پاتا ہے

 ڈاکٹر پٹھان کہتے ہیں کہ ہندوستان دراصل گاؤوں میں بسا ہے اور اگر آپ گاؤں میں رہیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ ہندو مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ کس طرح مل جل کر رہتے ہیں۔ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔

 وہ مزید کہتے ہیں کہ ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی زیارت گاہ ہوتی ہے یا پھر مزار ہوتا ہے ۔آپ دیکھیں گے کہ ایسی زیارت گاہوں پر مسلمانوں کے ساتھ بڑی تعداد میں ہندو نظر آتے ہیں ۔اگر مسلمانوں سے ہندو نفرت کرتے تو ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

سدرشن کی خاکساری

 ڈاکٹر ایس این پٹھان کا کہنا ہے کہ میں جب ناگپور یونیورسٹی کا وائس چانسلر تھا،اس وقت کانگریس کی حکومت تھی ۔اسی دوران میری آر ایس ایس کے سربراہ کے سدرشن صاحب سے بہت قربت ہوگئی تھی۔ اس کا سبب ان کا اخلاق اور محبت تھی۔ ان کی خاکساری کا یہ عالم تھا کہ پہلی بار مجھے فون کیا تو کہا کہ میں آپ سے ملاقات کرنے کے لئے آرہا ہوں۔ ڈاکٹر پٹھان نے کہا کہ اس کے بعد وہ اکثر میری سرکاری رہائش گاہ پر آیا کرتے تھے،مختلف موضوعات پر بات کیا کرتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ سنگھ کے بارے میں میرے خیالات کو بدلنے میں اہم کردار سدرشن جی نے ہی ادا کیا۔ تھا۔

بات محمد اظہر حیات کی

ڈاکٹر پٹھان کی کتاب مراٹھی میں ہے جس کو اردو میں ترجمہ کرنے کی ذمہ داری نبھانے والے محمد اظہر حیات دراصل ناگپورکے انجمن گرلز کالج آف آرٹس کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔ وہ دس کتابوں کے مصنف ہیں اور انہیں اردو ادب سے بہت لگاو ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ در اصل ڈاکٹر پٹھان کو ان کی زندگی کے ہر نازک اور اہم موڑ پر ہندو پڑوسیوں اور دوستوں کی مدد حاصل رہی ہے انہیں کبھی بھی کسی بے بسی کا احساس نہیں ہوا۔

وہ گاوں میں رہے تو ان کی تعلیمی کامیابی کا جشن منانے والوں میں سب سے آگے ہندو پڑوسی ہی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک مزدور گھرانہ میں آنکھ کھولی تھی۔والد راج مستری تھے اور والدہ اینٹیں اٹھایا کرتی تھیں۔ ان حالات میں ڈاکٹر پٹھان نے تعلیم حاصل کی ۔جب بھی کوئی ضرورت پڑی گاوں کے لوگوں نے بلا تفریق ان کی مدد کی ۔یہی وجہ ہے کہ آج وہ اسی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قائل ہیں ۔

اظہر حیات کہتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کا ترجمہ کرتے ہوئے اس بات کو محسوس کیا کہ ڈاکٹر پٹھان چاہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔خاص طور پر مسلمان کسی کی نیت یا ارادے پر بغیر ثبوت شک نہ کریں ۔ محبت ،خلوص اور بھائی چارہ کا ماحول بنا کر زندگی گزاریں۔

محمد اظہر حیات کا کہنا ہے کہ کتاب میں ہندوستانی تہذیب کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے،یہ بتایا ہے کہ ہندتوا کسی ایک مذہب کی تہذیب کا نام نہیں ہے بلکہ مشترکہ تہذیب کا نچوڑ ہے۔ جس میں ہندوستانیت پوشیدہ ہے۔