حجاب یا پردہ ایک شرعی اور اسلامی حق ہے۔ مولانا اعجاز عرفی قاسمی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-02-2022
حجاب یا پردہ ایک شرعی اور اسلامی حق ہے۔ مولانا اعجاز عرفی قاسمی
حجاب یا پردہ ایک شرعی اور اسلامی حق ہے۔ مولانا اعجاز عرفی قاسمی

 

 

 نئی دہلی:ریاست کرناٹک سے شروع ہوکر پورے ملک کے طول و عرض میں آگ کی طرح پھیل جانے والے حجاب کے مسئلہ پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے کہا کہ حجاب یا پردہ ایک شرعی اور اسلامی حق ہے، جس کا ہماری ماں بہن اوربہو بیٹیاں اپنی عصمت کے تحفظ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس حق سے مسلمانان ہند کبھی دست بردار نہیں ہوسکتے۔

انھوں نے کہا کہ ہمارا وطن عزیز ہندستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے جس میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہبی رسم و رواج اور عبادات کی ادائیگی اور اپنیانہوں نے کہا کہ تہذیب و ثقافت کے تحفظ اوراس کے علانیہ مظاہرے کا قانونی حق فراہم کیا گیا ہے، پردہ یا حجاب کے خلاف فرقہ پرستوں کا اظہار نفرت، تعلیمی اداروں میں برقع پوش طالبات کے خلاف نوٹس، تعلیم گاہوں اور کلاس روم میں ان کے داخلے پر پابندی یا اس پر کسی قسم کی فرقہ پرستانہ مداخلت کو قطعی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ پردہ یا حجاب پر تعلیمی اداروں میں پابندی سے پوری دنیا میں یہ منفی میسیج جائے گا کہ ہندستان جیسے گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کے حامل ملک میں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب اور شریعت کے التزام سے روکا جارہا ہے،اس قسم کی کوششوں سے ہماری شبیہ عالمی پیمانے پر متاثر ہوگی، کیوں کہ ہمارے دستور و آئین میں یہ صراحت موجود ہے کہ اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت، مذہب و عقیدہ کے اظہار سے ملک کے کسی فرد کو منع نہیں کیا جائے گا۔

انھوں نے اس معاملے میں صبر و ضبط اور تحمل و برداشت سے کام لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانا یا احتجاج کرنے کا حق دستور میں فراہم کیا گیا ہے، مگر اس معاملے میں اشتعال یا جذباتیت سے بچنے کی بھی ضرورت ہے، فرقہ پرست اور مسلم مخالف عناصر کسی بھی موقع کا غلط استعمال کرسکتے ہیں،معاملہ عدالت میں زیر غور ہے اور ہمیں یقین و اعتماد ہے کہ عدلیہ دستوری و آئینی صراحتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرے گی۔

ملی تنظیموں، دانشوروں، علما اور سماجی قائدین سے بھی اپیل ہے کہ وہ عدالت میں مضبوطی کے ساتھ ماہر وکلا کی مدد سے اس معاملے کو سامنے رکھیں، اور اس مسئلے کو کسی بھی قسم کی جذباتیت یا اشتعال کا شکار ہونے سے بچانے اور ملت کے نوجوانوں کی صحیح سمت میں رہ نمائی کرنے کی کوشش کریں۔سنجیدگی اور تحمل سے بڑے بڑے مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہ