حجاب کیس :مذہب کی تشریح کرنا مذہب کے ماہرین کی ذمہ داری: مولانا احمد ولی فیصل رحمانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-03-2022
حجاب کیس :مذہب کی تشریح کرنا مذہب کے ماہرین کی ذمہ داری: مولانا احمد ولی فیصل رحمانی
حجاب کیس :مذہب کی تشریح کرنا مذہب کے ماہرین کی ذمہ داری: مولانا احمد ولی فیصل رحمانی

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی 

مذہب کی تشریح کرنا مذہب کے ماہرین کی ذمہ داری۔ امیر شریعت امیر شریعت بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی، مونگیر نے حجاب مسئلے پر کرناٹکا ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا کہنا کہ پردہ اسلام میں لازمی نہیں ہے یہ سراسر خلاف حقیقت ہے۔ مذہب کی تشریح کرنا مذہب کے ماہرین کا کام ہے نہ کہ عدالت کا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے لازمیت کی تحقیق  کا استعمال کرتے ہوئے حجاب کی لازمیت کو غلط تعبیر کیا ہے۔ ہم لوگ توہین عدالت نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کے احکام کی تشریح عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ مذہبی آزادی کو یقینی بنانا عدالت کی ذمہ داری ہے جبکہ مذہب کی تشریح کا عمل اس کو محدود کر دیتا ہے۔ ان دونوں کاموں کو کرنے کے نتیجہ کا لازمی نقصان یہ ہوگا کہ عدالت مذہب کی آزادی کو مکمل طور پر یقینی بنانے میں ناکام رہے گی۔

عدالت کی جانب سے مذہبی احکام میں لازمی اور غیر لازمی باتوں کا طے کرنا مذہبی آزادی پر قد غن لگانے جیسا ہے۔ عدالتیں قانونی اعتبار سے سیکولرہیں اس لیے اسے کسی مذہب کے قوانین کی تشریح کا کام نہیں کرنا چاہیے۔ مذہبی قوانین کی تشریح کا کام اس مذہب کے ماہرین کا ہے۔ٹھیک اسی طرح جیسے  آئین کی تشریح کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے۔

یکطرفہ طور پر حجاب کو دین کا غیر لازمی حصہ بتا کرپابندی کو جائز ٹھہرا دینا واضح طور پر غلط فیصلہ ہے۔ اس کی وجہ سے عدلیہ سے عوام کا اعتماد اٹھ جائےگا اور کسی ملک میں عوام کا عدلیہ سے بھروسہ اٹھ جانا اس ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔

انہوں نے اس ضمن میں حکومت کو متوجہ کیا کہ اسکول و کالجز میں ایسا ڈریس کوڈ متعارف کرایا جائے جو علاقائی روایات اور مذہبی شعار کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہو، جس سے ہر شہری مامون و مطمئن ہو اور اسے وہ شخصی آزادی، آزادی اظہار اور رائے کے اختیارات پر پابندی لگانا نہ سمجھے۔ اس لیے ملک کے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں قرآن اور حدیث کو خود پڑھیں اور حقوق کی آزادی سے متعلق ملک کے آئین کا مطالعہ کریں اور اپنے علاقہ کے عوامی نمائندے اور انتظامیہ تک اپنی بات کھل کر پہنچائیں اور اپنی اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تمام شہریوں اور تمام مذہب کا آئینی اور دستوری فریضہ ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کریں اورتنوع میں اتحاد کے اصول کے تحت اس وطن کو ایک خوبصورت گلستاں بنائین جہاں ہر رنگ و بو کے پھول کھلتے ہوں۔ انہوں نے اپنے پریس بیانیہ میں اپیل کی کہ مسلم خواتین کو حجاب کے اہتمام کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

انہوں نے حجاب پر جمنے، ڈٹنے اور اپنی آوز بلند کرنے والی جرأت مند مسلم طالبات کو مبارکباد پیش کی اورکہا کہ وہ اپنے حوصلے پست نہ کریں۔

ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا نقطہ نظرحقوق کی آزادی کے مطابق ہوگا۔ ان شاءاللہ حضرت امیر شریعت نے یہ بھی فرمایا کہ قومیں چیلیجز کے بعد ہی نکھرتی ہیں اور آگے بڑھتی ہیں۔

جن قوموں کو چیلینجیز درپیش نہیں ہوتے ہیں وہ خواب غفلت میں مدہوش ہو جاتی ہیں۔ اللہ نے مسلمانوں کو امت دعوت بنایا ہے۔اس لیے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے برادران وطن کے ساتھ افہام و تفہیم کے کام میں لگ جائیں تاکہ دلوں کی دوریاں کم ہوں، غلط فہمیاں دور ہوں اور خوشگوار فضا قائم ہو۔